سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 7 مسلم ممالک کے شہریوں میں امریکا میں داخلے پر عارضی پابندی لگانے کے حکم کا دفاع کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیر دفاع شیخ عبداللہ بن زید النہیان کا کہنا تھا کہ ’یہ امریکا کا حق ہے کہ وہ مہاجرین کے اپنے ملک میں داخلے کے حوالے سے جو خود مختار فیصلہ لینا چاہے لے سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکی انتظامیہ نے یہ فیصلہ مذہب کی بنیاد پر نہیں کیا، جبکہ زیادہ تر مسلم ممالک پر اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔
روسی ہم منصب سے ملاقات کے بعد ابوظہبی میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پابندی عارضی طور پر لگائی گئی ہے جس پر تین ماہ بعد نظرثانی کی جائے گی، اس لیے اہم بات یہ ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جن ممالک کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی عائد کی گئی ان میں سے چند میں بنیادی سہولیات تک کا فقدان ہے جن پر انہیں قابو پانا چاہیے۔‘
دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر تیل خالد الفلیح نے مسلم ممالک پر لگائی جانے والی سفری پابندی کے امریکی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پابندی سے لوگوں کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ وقت کے ساتھ ختم ہوجائیں گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے خالد الفلیح نے کہا کہ ’نئی امریکی انتظامیہ سابق صدر براک اوباما کی غیر حقییقی پالیسیوں سے بہتر ہے اور ان کی مدد سے امریکا اور سعودی عرب کی معاشیات کو مشترکہ فائدہ ملے گا۔‘
خالد الفلیح سے جب پوچھا گیا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے وعدے کہ مطابق سعودی عرب سے تیل خریدنا بند کر دیں تو کیا ہوگا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دھمکی حقیقت میں نہیں بدلے گی۔‘
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے نئے امریکی صدر کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر کے تحت امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 120 دن (یعنی 4 ماہ) کے لیے معطل کردیا گیا تھا جبکہ 7 مسلمان ممالک ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کو 90 دن (یعنی 3 ماہ) تک امریکا کے ویزے جاری نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں نئے آرڈر کے تحت امریکا میں شامی مہاجرین کے داخلے پر تاحکم ثانی پابندی بھی عائد کردی گئی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے جاری کردہ اس ایگزیکٹیو آرڈر پر دنیا بھر سے تنقید سامنے آرہی ہے، جن میں امریکی اتحادی بھی شامل ہیں جبکہ سفری پابندیوں کی مخالفت میں امریکی شہریوں کے احتجاج کا سلسلہ بھی کئی روز سے جاری ہے۔