یہ مانا آپ کی جلوہ نمائی آسماں پر ہے
مگرسینے میں ایک آتش فشانی ہم بھی رکھتے ہیں
– اقبال آذر
(عبیداللہ ناصر)
صدر کانگریس سونیا گاندھی کی اس بات کے لئے تعریف کی جانی چاہئے کہ انہوں نے خوشامد پسندوں اور چاپلوسوں کی ایک نہیں سنی اور راہل گاندھی کو وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر نامزد نہ کرنے کے لئے پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں اپنے حق اختیار اور ویٹو کا استعمال کیا ورنہ کانگریس کے زیادہ تر چاپلوس اور خو شامد پسند لیڈران اس بات کا زبردست دباو¿ ڈال رہے تھے کہ مودی کے مقابلے میں راہل گاندھی کو وزیر اعظم کے عہدہ کے امیدوار کے طور پر پروجیکٹ کیا جائے ۔ کچھ ٹی وی والے بھی یہی چاہتے تھے اور بی جے پی کی تو دلی خواہش تھی ۔ ویسے بھی بی جے پی ہر بار الیکشن سے قبل اپنے وزیر اعظم کے نام کا اعلان کردیتی ہے مگر وہ بیچارہ اب تک تو منتظر وزیر اعظم ہی بنا رہا ۔ در اصل بی جے پی شروع سے ہی پارلیمانی الیکشن کو امریکی صدارتی الیکشن کے طرز پر لڑنا چاہتی ہے جبکہ ہمارے پارلیمانی جمہوری نظام میں پارٹیاں اپنی پالیسی اور پروگراموں کی بنیاد پر الیکشن لڑتی ہیں اور پارلیمنٹ میں جس پارٹی کو اکثریت ملتی ہے اس کے منتخب ممبران اپنا لیڈر یعنی وزیر اعظم منتخب کرتے ہیں ۔ مسز سونیا گاندھی نے اسی آئینی جواز کا سہارا لے کر راہل گاندھی کے سلسلہ میں ایک دور اندیشانہ فیصلہ کیا اب بی جے پی اور ٹی وی والے سڑک چھاپ بدمعاشوں کی طرح کانگریس کو یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ وہ مودی کے مقابلہ میںیقینی شکست کے ڈر سے راہل کو بچانے کے لئے ان کو امیدوار نہیں نامزد کررہی ہے حالانکہ کانگریس نے انہیں انتخابی مہم کمیٹی کا سر براہ بناکر مودی کے چیلنج کو قبول تو کرہی لیا دوسرے سونیا اور راہل وزیر اعظم کے امیدوار ہوں یا نہ ہوں، شکست اور فتح کی حتمی ذمہ داری سے تو وہ بچ نہیں سکتے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے راہل کو وزارتِ عظمی کا امیدوار نہ بنا کر کانگریس نے انتخابات کے دو اہم پہلوو¿ں کا اعتراف کیا ہے۔ اول تو یہ کہ پارٹی اقتدار میں آنے کے بارے میں پر اعتماد نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ اس نے راہل کو وزارتِ عظمی کا امیدوار نہ بنا کر دوسری جماعتوں کے رہنماو¿ں کے امکان کو کھلا رکھا ہے۔ موجودہ انتخابی پس منظر میں کانگریس کی یہ حکمت عملی صحیح نظر آتی ہے۔ ایک مخلوط حکومت کی قیادت کرنا کتنا مشکل ہوتاہے یہ کوئی ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دل سے پوچھے ۔کیا راہل اور مودی دونوں اس تدبر اور پتے ماری کا مظاہرہ کر پائیں گے جو اٹل جی اور منموہن نے کردکھایا ہے یہ بڑا سوال ہے۔ دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی نے مودی کو اتار کر میڈیا کوریج اور مقبولیت کی جدو جہد میں جو ابتدائی سبقت حاصل کی تھی وہ عام آدمی پارٹی کے دہلی میں اقتدار آنے سے ماند پڑ چکی ہے۔مودی اب رفتہ رفتہ اپنی کشش کھوتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ پارٹی کی اس وقت ساری توجہ اب کانگریس کے بجائے عام آدمی پارٹی کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر پر مرکوز ہے۔ حالانکہ یہ پارٹی اور دہلی میں اس کی حکومت غلطیوں پر غلطیاں کرکے اپنی مقبولیت کھوتی جارہی ہے گذشتہ دنوں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے دہلی میں غیر ملکی رٹیل کمپنیوں کو اپنے رٹیل بازار کھولنے کا سابقہ حکومت کا فیصلہ رد کر دیا۔ایک دوسرے واقعے میں پارٹی کے رہنما دہلی پولیس سے سیدھے ٹکراو¿ کے راستے پر ہیں اور ان دونوں معاملات میں پارٹی پر شدید نکتہ چینی کی گئی ہے۔
پارلیمانی انتخابات اپریل سے جون تک پانچ یا چھ مرحلوں میں منعقد کیے جانے کی توقع ہے۔اس بار کے انتخابات انتہائی دلچسپ ہیں۔ ایک طرف بی جے پی اور کانگریس جیسی روایتی جماعتیں ہیں اور دوسری طرف ان کے مقابل عام آدمی پارٹی ہے۔ عوام کا رویہ واضح طور پر تبدیلی کی طرف کی طرف مائل نظر آتا ہے۔روایتی جماعتوں میں بے چینی کے آثار نمایاں ہیں۔ اس بے چینی کا سبب عام آدمی پارٹی نہیں بلکہ ملک کے سیاسی نظام کے بارے میں عوامی سطح پر اجتماعی سوچ میں غیر معمولی تغیر ہے۔ اور اس کے لئے پرانی سیاسی پارٹیاں اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتیں کیونکہ انہوں نے ہی جمہوریت کو شہنشاہیت اور ملوکیت میں تبدیل کردیا ہے۔عام آدمی پارٹی اس تبدیلی کی محض ایک علامت ہے۔ اس وقت عوام کی تمناو¿ں اور سیاسی نظام کے درمیان ایک زبردست خلا ہے۔ اس خلا کو جو جماعت پر کرے گی وہی مستقبل میں بچ سکے گی ۔ عوام اب اپنے سیاسی رہنماو¿ں کو اپنا حکمراں اور اپنی قسمت کے سیاہ و سفید کا مالک تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں یہ لال بتی یہ ہوٹر اور سائرن کی آواز ہٹو بچو کی صدائیں اب عوام مزید سننے کو تیار نہیں ہیں ۔ اس تبدیلی کو جتنی جلد اور جتنے موثر طریقہ سے جو پارٹی نافذ کر سکے گی وہ ہی عوام کے دلوں پر راج کرے گی۔ شخصیت سے زیادہ عوام کی نظر اصولوں اور پروگراموں پر ہوگی۔
(مضمون نگار روزنامہ’ قومی خبریں‘ کے ایڈیٹر ہیں)