زبیر حسن شیخ
شیفتہ کا برقی پیام پڑھ کر پہلی بار احساس ہوا کہ دورجدید میں اردو ادب کی مے ناب میں شرابور ہو کر اور ادبا و شعرا سے مستفیض ہو کر بھی ہم مذاق ادب سے مکمل طور سے واقف نہیں ہوئے – برقی پیام میں صرف اتنا ہی لکھ بھیجا کہ مذاق – “ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا”- ہم نے سوچا شیفتہ ابھی ابھی ووٹ ڈال کر آئے ہونگے اور سیاست و جمہوریت کو جس طرح مذاق بنایا جارہا ہے اس سے متاثر ہو کر لکھ دیا ہوگا- ضرور الکشن کمیشن نے موجودہ حکومت کے زیر اثر جو فرمان جاری کیا تھا اسی پر تبصرہ فرما رہے ہونگے –
فرمان کیا تھا سوالات کی آڑ میں ان لوگوں کو دھمکی تھی جو اپنا آئینی فرض ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں، اور ووٹ ڈالنے پولنگ بوتھ تک نہیں جاتے کہ – کیوں نہ آپ کا پاسپورٹ رد کیا جائے ؟ ٹیکس کی مراعات واپس لی جائیں ؟ – وغیرہ وغیرہ – اب کوئی بتلائے کہ ہم بتلا ئیں کیا- اور کسے بتلائیں اور کیونکر کہ بقول حالی: کوئی ہمدم نہیں ملتا جہاں میں …. مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں- اب یہاں حالی کی طرح ہماری مراد بھی اپنی طرز فکر و بیاں سے ہے نا کہ اپنی مادری زبان اردو سے ہے، جس کا یہ حال اہل اردو نے کیا کہ یوم مادری زبان پر بھی اسکی ترویج و ترسیل کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کرسکے – خیر وہ تو اچھا ہوا ہم نے الکشن کمیشن کو حالی کا مذکورہ شعر لکھ نہیں بھیجا – بلکہ دوسرا شعر بھی کہ … قفس میں جی نہیں لگتا کسی طرح … لگا دو آگ کوئی آشیاں میں – وہ شا ید جواباً پھر سوال کر دیتے کہ … کیوں نہ آپ کے آشیاں میں آگ لگا دی جائے؟ اور پچھلے پانچ برسوں میں کسی نے لگایا کیوں نہیں ؟ – اب انہیں کون بتلائے کہ رائے دہندگان کے گھروں میں تو آگ کب سے لگی ہے-
سیاست دانوں نے تو دلوں تک میں آگ لگا رکھی ہے – پھر چاہے بر صغیر ہو یوروپ ہو یا ہو امریکہ- الکشن کے نتائج آنے کے بعد تو عوام اگلے الکشن تک سینوں میں آگ لئے پھرتی ہے- الکشن کمیشن کے ان تمام کیوں کا جواب ضرور دیا جانا چاہیے کہ اگر آپ اتنے ہی با اختیار ہیں تو ذرا ان سیاست دان امیدواروں سے پوچھیے کہ جناب الکشن پر ہوئے اربوں روپوں کے غیر قانونی اخراجات کا حساب ووٹنگ سے پہلے کیوں نہیں لیا جائے ؟ کیونکہ حکومت میں آنے کے بعد اختیارات نہ عوام کے پاس ہوتے ہیں اور نہ ہی الکشن کمیشن کے پاس- ان نا اہل امیدواروں سے ذرا پوچھیے تو انکے انتخابی علاقوں کا طول و ارض کیا ہے، کیا انہیں کچھ پتا ہے ؟
– انکے علاقہ کے رائے دہندگان کی گنتی کے علاوہ انکے بنیادی مسائل کیا کیا ہیں ؟ اور ان بنیادی مسائل، جن میں صرف پانی، بجلی، صفائی، صحت تعلیم اور ذرائع آمد و رفت جیسی بنیادی ضرورتیں شامل ہیں، کو حل کرنے میں کتنا خرچ آئے گا اور کتنا وقت درکار ہوگا ؟ پھر دیکھیے کتنے امیدوار اہل ثابت ہوتے ہیں- یہی سب کچھ سوچ کر ہمیں شیفتہ کے برقی پیام سے احساس ہوا کہ واقعی عالمی سیاست نے جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے- لیکن پھر یہ لفظ مذاق بقول شیفتہ کے شرمندۂ معنی کیوں نہ ہوا ….. کیا جمہوریت کو مذاق کے سوا کچھ اور بنا دیا گیا ہے- اور اگر ہاں تو پھر کیا ؟ کیا کوئی گالی بنا دی گئی ہے جو رائے دہندگان اگلے الکشن کی میعاد تک سیاستدانوں کو دیتے رہتے ہیں….. خیال گزرا ہو نہ ہو شیفتہ نے ادب کے متعلق اپنے پیام میں اشارا کیا ہو- الغرض ہم جیسے تیسے شام کر چمن میں جا پہنچے کہ شیفتہ سے معلوم کریں ان کا مدعا کیا ہے –
فرمایا مرزا نے تو یہ مصرعہ لفظ وفا کے ذکر پر کیا تھا اور فرمایا تھا کہ: دہر میں نقش وفا وجۂ تسلی نہ ہوا ….. ہے یہ وہ لفظ، کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا – اور یہ بھی آگے فرمایا کہ – میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں – وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا…. ہم نے پوچھا کون الکشن کمیشن یا امیدوار؟ ہم نے کہا، اول تو یہ مذاق ہی ہماری سمجھ میں نہیں آتا- شیفتہ نے ہمارے سوال کو در گزر کیا اور فرمانے لگے – حضور لفظ مذاق دراصل عربی زبان سے ماخوذ ہے – عربی میں مذاق اور ذوق بہ معنی ذائقہ اور چکھنے کے مستعمل ہے اور اسی سے عربی لفظ ذواقه بنا ہے-
جس سے مراد فاحشہ کے لی جاتی ہے – ہم پھر مغالطہ میں آگئے اور پوچھا جناب، آپ کا مطلب ہے موجودہ جعلی جمہوری سیاست کی مثال ایک ذواقه کی ہے ؟ فرمایااردو ادب میں مذاق کثیر المعانی ہی نہیں متضاد بھی ہے – مذاق بطور چکھنے، لذت، ذائقہ، مزہ،اختلاط، میلان،، رحجان سلیقہ کے علاوہ ہنسی مذاق اور دل لگی، تمسخر کے لئے بھی مستعمل ہے- ہم نے کہا، خوب حضور اب سمجھ میں آیا… اور ہم نے صحیح سوچا تھا … موجودہ سیاست ایک مذاق کیوں ہے- اب ان میں سے ہر ایک معنی موجودہ دور کی جعلی جمہوریت کی مکمل عکاسی کرتا ہے – اعلی ترین عہدیدار کو دیکھیے…. کسی بھی ملک کے اہل اقتدار کو دیکھیے کہ وہ کس قدر مزہ لے رہا ہے، بلکہ مزے اڑا اڑا کر عوام کا مذاق اڑا رہا ہے- اور مادی لذتوں کے کسقدر مزے لوٹ رہا ہے کہ غریب و بے بس عوام کے ساتھ تمسخر کر رہا ہے – آپسی اختلاط سے حکومت بنا رہا ہے- اور کس سلیقہ سے ہنسی مذاق بنا رہا ہے کہ عوام کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ مذاق اور مذاق میں فرق کیا ہے –
فرمایا جناب آپ کہاں بھٹک گئے، ہم تو واقعی ادب کے تعلق سے اس لفظ مذاق پر تبصرہ کر رہے تھے- لفظ مذاق اٹھارویں صدی کے اوائل میں اردو ادب میں مستعمل ہوا – نثر میں میر امن دہلوی اور شا عری میں ولی دکنی سے سودا و درد تک خال خال پایا گیا – میر کے آتے بھی ذوق و شوق بہ معنی مذاق کے مستعمل ہوا- بقول میر: ہے کون آپ میں ؟ جو ملے تجھ سے، مست ناز …… ذوق خبر ہی نے تو ہمیں بے خبر کیا ….. الغرض قدما نے لفظ مذاق کی بہ نسبت ذوق و شوق کو کافی مستعمل کیا – لیکن مذاق کو بہ معنی سلیقہ، مزا، لذت یا چکھنے کے زیادہ استعمال نہیں کیا – البتہ غالب و مو من کے دور کے آتے آتے مذاق بہ معنی ہنسی مذاق اور ذوق و شوق کے مستعمل ہو ا – ہم نے سوچا قدما نے گاہے بگاہے آنے والی سیاست کی عکاسی کے لئے کسقدر کثیر المعانی الفاظ کو رائج کیا تھا –
فرمایا، مومن نے بھی کہا تو یوں کہا کہ: کہتے تھے ان کو برق تبسم ، ہنسی سے ہم … یعنی مذاق سے کہتے تھے – ہم نے سوچا لیجیے یہ بھی سیاستدانوں پر کسقدر جچتا ہے- فرمایا، شوق کے ضمن میں بھی اتنا ہی کہا کہ: شوق ثواب نے مجھے ڈالا عذاب میں .. جہاں شوق بہ معنی ذوق و اشتیاق کے لیا ہے … ہم نے سوچا یہ تو جمہوریت میں رائے دہندگان پر خوب چسپاں ہوگا – …فرمایا، غالب نے بہ معنی اشتیاق شوق کا استعمال یوں کیا کہ – جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے – اور لذت بہ معنی مزہ، شوق اور مذاق کے کئی بار استعمال کیا … لذت آزار سے لے کر لذت رسا جگر تک …. لیکن مذاق میں بھی لفظ مذاق کا استعمال نہیں کیا – شوق کو یہ لت، کہ ہر دم نالہ کھینچے جا ئیے… میں لت کا استعمال بہ معنی عادت کے بہت خوبصورتی کے ساتھ کیا – فرمایا، شوق کا استعمال بہ معنی اشتیاق حالی نے بھی کیا – شوق بڑھتا گیا جوں جوں رکے اس شوخ سے ہم – فرمایا، لیکن علامہ نے اپنے کلام میں مذاق بہ معنی سلیقہ لیا ہے اور فرمایا –
اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہ سائی سے…… تو سنگ آستان کعبہ جا ملتا جبینوں میں- اور یہ بھی فرمایا کہ: اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن…… جو شے کہ حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا- ہم نے سوچا یہ دونوں اشعار مسلمان رائے دہندگان کو سمجھنے اور سمجھا نے کے لئے خوب ہے – فرمایا ، الغرض پھر نثر میں حالی، شبلی، سر سید، نذیر، آزاد، ابولکلام نے مذاق کو اپنی مختلف تحاریر میں مذکورہ تمام معنوں میں اخذ کیا – ہم نے کہا لیکن حضور موجودہ سیاست غلیظہ نے مذاق کو واقعی شرمندۂ معنی کردیا ہے – اور اسکے ساتھ ہی جمہوریت کو انسانیت کے روبرو شرمندہ بھی کرکے رکھ دیا ہے- فرمایا، اردو ادب کا یہی کمال ہے بقول حالی کہ: “لفظ جادو کی فوج سامنے کھڑی کردیتا ہے – اور کبھی وہ ایک ایسے خیال کو، جو کئی جلدوں میں بیان ہوسکے، ایک لفظ میں ادا کردیتاہے “-