ڈیواس ۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے امریکا کے ساتھ تین دہائیوں سے جاری دشمنی کو دوستی میں بدلا جا سکتا ہے بشرطیکہ دونوں طرف سے کوشش کی جائے۔ انہوں نے اس امر کا اظہار ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت کیلیے ڈیواس پہنچنے کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کیا ہے۔
ایرانی صدر یہاں آج جمعرات کے روز دنیا بھر سے آئے رہنماوں، بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور آئل کمپنیوں کے عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے۔
ڈاکٹر حسن روحانی سے پوچھا گیا کیا یہ ممکن ہے کہ تہران میں دوبارہ امریکی سفارت خانہ کھل جائے بجائے اس کے کہ سوئٹزر لینڈ کا سفارت خانہ ہی امریکی معاملات کو دیکھتا رہے؟ اس پر انہوں نے کہا ” کوئی بھی دشمنی یا دوستی مستقل نہیں ہوتی ہے اس لیے ہمیں دشمنیوں کو دوستی میں بدلنا ہو گا۔”
واضح رہے ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے ابتدائی معاہدے کے بعد امریکا نے اسی ہفتے ایران پر عاید پابندیوں میں قدرے نرمی کی ہے۔ اس حوالے سے ایرانی صدر کے ڈیواس آنے کا بڑا مقصد بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو ایران میں سرمایہ کاری پر مائل کرنا ہے۔
چھہتر ملین کی آبادی کے باعث ایران ایک طرف ایک اہم مارکیٹ کا درجہ رکھتا ہے اور دوسری طرف تیل اور گیس کی پیداوار کے اعتبار سے سرمایہ کاروں کیلیے اہم ہے۔
صدر حسن روحانی نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا ” امریکا کے ساتھ تعلقات ماضی میں مشکل رہے ہیں لیکن اب دونوں جانب سے محنت اور کوششوں کے تیجے میں مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔” انہوں نے مزید کہا یہ کوشش بنیادی طور پر دوطرفہ اعتماد سازی کیلیے ضروری ہے، ایران درحقیقت تمام ملکوں کے ساتھ امن اور دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے کیونکہ ہر ملک کے ساتھ دوستانہ اور اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔”
ایرانی صدر نے جوہری معاملات پر آئندہ دنوں ہونے والے مشکل مذاکرات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جسا کہ مغربی ممالک سمجھتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش میں رہا ہے، تاہم انہوں شام کے مسئلے پر ہونے والی جنیواٹو کے حوالے سے کہا اگر کوشش شامی عوام کی منشا کے مطابق ہو گی تو ثمرات سامنے آ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن روحانی کا کہنا تھا ” اگرچہ جنیوا ٹو میں کسی فیصلے پر پہنچنا مشکل ہے لیکن میری خواہش ہے کہ شامی عوام کی خواہشات آگے بڑھیں اس کے باوجود کہ مجھے اس کانفرنس کے بارے میں شبہات ہیں۔” ایرانی صدر نے سعودی عرب اور قطر پر الزام عاید کیا کہ وہ شام میں دہشت گردی کی حمایت کر کے مشرق وسطی میں اپنے اثرات بڑھا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔