عبید اللہ ناصر*
مسلمانوں نے کبھی بھی گو کشی پر پابندی کی مخالفت نہیں کی –آزادی سے پہلے قانون نہ ہوتے ہوئے بھی مسلم زمینداروں نے اپنی ہندو رعایا کے مذہبی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے کبھی کھلے عام گو کشی نہیں ہونے دی –
در اصل یہ سلسلہ مغل شہنشاہ بابر کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا جنہون نے اپنے فرمان اور پھر اپنے بیٹے ہمایوں کو وصیت کی تھی کی اپنی ہندو رعایا کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ملک میں گوکشی کی اجازت نہ دینا –آزادی کے بعد ١٩٥٥ میں بابو سمپورنآنند کے زمانے میں اتر پردیش میں گو کشی پر پابندی کا قانون نافذ ہوا جسکا مسودہ رفیع احمد قدوائی نے تییار کیا تھا تب سے آج تک مسلمانوں نے کبھی اسکے خلاف آواز نہیں اٹھائی حالانکہ یہ انکے خانے پینے کی بنیادی آزادی پر حملہ تھا جسے انہون نے ہنسی خوشی قبول کیا –
ہر سال بقرعید کے موقعہ پر دارالعلوم دیوبند اور دیگر دینی اداروں سے ہدایت اور اپیل جاری ہوتی ہے کہ مسلمان ملکی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے گاے کی قربانی نہ کریں جس پر پوری ایمانداری سے عمل ہوتا ہے –
ان حالات میں اجمیر شریف کے درگاہ کے سجادہ نشین صاحب ہوں یا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے فاضل ارکان اگر گوکشی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ صرف موجودہ حکمرانوں کو خوش کرنے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اس لئے کی جس عمل پر پہلے سے ہی پابندی لگی ہے اور جو کام پہلے سے ہی غیر قانون قرار دیا جا چکا ہے اس کے لئے پھر سے پابندی لگانے یا غیر قانونی قرار دینے کے مطالبہ کیا معنی رکھتا ہے –
خبر ہے کی نجف اشرف سے فتوہ آیا ہے کہ گاے کا ذبیحہ اور اسکا گوشت کھانا حرام ہے یہ چونکا دینے والا فتوہ ہے کیونکہ اسلامی عقیدہ کے مطابق اللہ نے حرام ہلال کا فیصلہ قیامت تک کے لئے کر دیا ہے اللہ نے جو حرام کر دیا وہ قیامت تک حرام رہیگا اور جو ہلال کر دیا وہ قیامت تک حلال رہیگا مذکورہ فتوآ جاری کرنے والے عالم دین کو مذکورہ قرانی آیت کا حوالہ بھی دینا چاہئے تھا جسکے تحت انہون نے گاے کے ذبیحہ اور اسکے گوشت کو حرام قرار دیا ہے –دھیان رہے غیر قانونی ہونا ایک بات ہے حرام ہونا با الکل الگ بات- اس فتوے کا مطلب یہ ہوا کی اب تک جن شیعہ حضرات نے گاے کا گوشت کھایا یا بنگال شمال مشرقی ریاستوں اندھرا تلنگانہ گوا وغیرہ میں جو شیعہ حضرات گاۓ کا گوشت کھاینگے وہ حرام ہوگا-
شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا یعسوب عبّاس نے کہا ہے کی غیر قانونی مذبح سے خریدا گیا گوشت بھی حرام ہے اسکا مطلب یہ ہوا کی گزشتہ کی دہایوں سے لکھنو میں ٹنڈے کے کباب رحیم کی نہاری اور ادریس کی بریانی کھانے والے شیعہ حضرات حرام کھا رہے تھے بورڈ کو یہ بھی واضح کر دینا چاہئے تھا کی یہ شیعہ حضرات کفّارہ کیسے ادا کریں اور جو شیعہ حضرات جنت مکانی ہو چکے ہیں انکے ورثا انکی مغفرت کے لئے کیا عمل کریں –بہتر ہوگا شیعہ علما قرانی آیات کے حوالے سے اس فتوے کے سلسلہ میں اپنا موقف واضح کر دیں تاکہ اب تک گاے کا گوشت کھا چکے شیعہ حضرات اور بیرون اتر پردیش رہنے والے شیعہ حضرات گاۓ کا گوشت کھانے کو لے کر کسی تذبذب میں نہ رہیں _
ایک طرف گاۓ کے نام پر ملک کے زیادہ تر حصّوں مے مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا جا رہا ہے دادری میں اسحاق کو تو جھارکھنڈ کے جامتارا میں منہاج اور ابھی دو دنوں قبل الور میں پہلو خان نامی شخص کو گو رکشآ کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والے عناصر نے پیٹ کر بے رحمی سے مار ڈالا ہزاروں مسلمانوں کے سامنے روزی روٹی کا مسلہ کھڈا ہو گیا ہے اپنے پشتینی دھندھوں سے انھیں بے دخل کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے ایسی شرایط لگائی جا رہی ہیں کی گوشت کا کاروبار روایتی ہاتھوں سے نکل کر دھننا سیٹھوں کے پاس چلا جاے پھر وہ چاہے ذبیحہ کھلایں یا جھٹکا مسلمانوں کو کھانا پڑیگا دوسری جانب محض اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے لئے اس طرح کی شرمناک اور مضحکہ خیز باتیں کی جا رہی ہیں-
دھیان رکھئے فرقہ پرستی کی آندھی شیعہ سنی نہیں دیکھیگی آج بھلے ہی آپ کوکچھ لوگون لے منظور نظر بن جایں لیکن اپ رہینگے مسلمان ہی اور اس ناتے نشانے پر دشمن املاک قانون کا نفاز اسکی جگتی جاگتی مثال ہے لہذہ خدارا اپنی صفوں مے انتشار نہ پیدا کریں