اٹلانٹا: امریکی ماہرین نے مینڈک کے جسم میں پائے جانے والے لعاب جیسے مادّے میں ایک ایسا مرکب دریافت کرلیا ہے جو کئی اقسام کے برڈ فلو وائرس کو ناکارہ بناسکتا ہے۔
ریسرچ جرنل ’’امیونولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں امریکا کی ایموری یونیورسٹی (اٹلانٹا، جیورجیا) سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ جنوبی بھارتی ریاست کیرالا کے جنگلات میں ٹینس کی گیند جتنا ایک رنگین مینڈک پایا جاتا ہے جس کے لعاب میں ایک نیا مرکب دریافت ہوا ہے جسے ’’یورومین‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
انسانی خلیات پر کیے گئے تجربات کے دوران یورومین نے قدیم اور جدید اقسام کے درجنوں فلو وائرسوں کو بڑی کامیابی سے ناکارہ بنادیا۔ اگرچہ یہ تحقیقات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں لیکن ماہرین کو امید ہے کہ یورومین استعمال کرتے ہوئے مستقبل میں ایسی دوا بنائی جاسکے گی جو زکام کی متعدد اقسام کے خلاف مؤثر رہے گی۔
کیرالا کے راجیو گاندھی سینٹر فار بایوٹیکنالوجی کے ماہرین نے اس مینڈک کے لعاب سے مختلف مادّے علیحدہ کیے تھے اور ان میں جراثیم کش خصوصیات بھی دریافت کی تھیں۔ انہیں دیکھتے ہوئے ایموری یونیورسٹی کے ماہرین نے بھی اسے وائرس کے خلاف استعمال کے لیے جانچنے کا فیصلہ کیا۔ مینڈک کے لعاب سے انہوں نے 32 ایسے مرکبات حاصل کیے جو ممکنہ طور پر انفلوئنزا وائرس کو ناکارہ بناسکتے تھے مگر ان میں سے صرف ایک ہی کارآمد نکلا جس کا نام انہوں نے ’’یورومین‘‘ رکھ دیا۔ جب اسے پیٹری ڈش میں فلو کی مختلف اقسام سے متاثر کیے گئے انسانی خون کے خلیات پر آزمایا گیا تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ یہ ایک مرکب ہی کئی اقسام کے فلو وائرسوں کو بڑی آسانی سے ناکارہ بنانے میں کامیاب رہا تھا۔
اس غیرمعمولی کامیابی کے باوجود ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ابھی یہ دریافت اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے اور اسے انفلوئنزا کی دوا کے طور پر دستیاب ہونے میں کئی سال کا عرصہ درکار ہوگا۔