راجستھان کا شاہی سرخ شامیانہ یا خیمہ کسی دو منزلہ بس سے کم بلند نہیں۔ ملیسا وان در کلگت کا کہنا ہے کہ یہ شامیانہ یا خیمہ ریشم، مخمل اور سونے کا بنا ہوا ہے اور اسے تین سو سال میں پہلی بار باقاعدہ طور پر صاف کیا جا رہا ہے۔
راجستھان کے معروف مہران گڑھ قلعے میں ایک ٹیم اس شامیانے کی صفائی میں مشغول ہے۔ خیال رہے کہ یہ قلعہ انڈیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے قلعوں میں شامل ہے۔
اس کا ہر حصہ اتنا بڑا ہے کہ اس کی صفائی کے لیے تین آدمی سفید لباس میں ٹیبل کرسی پر چڑھے نظر آتے ہیں۔ ان کی جیبوں میں مختلف قسم کے نرم اور ملائم برش ہیں۔
ایک نے سخت طلائی دھاگوں میں بنے ایک بڑے کنول کے پھول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ‘ہماری ترجیح یہ چیز ہے۔’
یہ کوئی معمولی خیمہ نہیں ہے۔ اس میں جہاں لوگوں کی بہت زیادہ دلچسپی ہے وہیں یہ تنازع کا باعث بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کبھی مغل بادشاہ شاہ جہاں کا گھر ہوتا تھا جنھوں نے تاج محل کی تعمیر کروائی تھی۔
مہران گڑھ میں خیمے کی صفائی
ان کے خانہ بدوش آبا و اجداد وسط ایشیا اور افغانستان کی راہ ہندوستان آئے اور اس کے بڑے حصے کو فتح کیا اور یہ شامیانہ ان کا ‘ہمسفر محل’ تھا۔
یہ شاہی کارخانے میں سرخ ریشم، مخمل اور سونے میں تیار کیا گيا تھا اور جب اسے پھیلایا جاتا ہے تو اس کی اونچائی لندن کی ڈبل ڈیکر بس جتنی ہوتی ہے۔ اس لا ڈیرا یا شاہی لال ڈیرا یعنی شاہی سرخ خیمے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اور 350 سال میں پہلی بار اسے فوارے سے صاف کیا جا رہا ہے۔ جودھ پور میں قلعے کے آرکائیو کے ڈائرکٹر کرنی سنگھ جسول کا کہنا ہےکہ ‘اس قسم کی کوئی چیز نہ تو انڈیا میں بچی ہے اور نہ ہی کہیں اور۔ اس کے پس پشت یہ تصور تھا کہ اس میں کسی محل کی پوری جھلک آئے۔’
شاہجہاں کو ‘حیرت انگیز چیزوں کا معمار’ بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے دہلی اور آگرہ کی بعض بہترین تعمیرات بنوائیں لیکن انھوں نے تین دہائیوں پر مشتمل اپنے دور حکومت کا زیادہ تر حصہ فوج کشی میں گزارے۔
کہا جاتا ہے کہ بادشاہ کے سامان سفر کو ڈھونے کے لیے ایک سو ہاتھی، پانچ سو اونٹ اور چار سو بیل گاڑیوں پر مشتمل ایک ٹیم ہوتی تھی اور ہزاروں گھڑ سواروں کے ساتھ وہ جنگلوں اور میدانوں میں خیمہ زن ہوا کرتے تھے۔
جسول بتاتے ہیں کہ ‘ان کے خیمے میں تکیے، گدے اور بستر کے علاوہ حقے، شراب کی صراحی اور زیورات کے صندوق ہوتے تھے۔’
شاہی کھانے کے لیے چینی مٹی کے ظروف ہوتے اور اس کے لیے مخصوص قلی ہوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دن میں آرام سے دس بارہ میل کا سفر کرتے اور راستے میں ہرن اور شیر کا شکار کرتے چلتے۔
مہران گڑھ میں خیمے کی صفائی
جسول بتاتے ہیں کہ مغل اس طرح کے عارضی شہر بناتے چلتے تھے۔ شاہجہاں کے جد امجد ظہیر الدین محمد بابر افغانستان سے انڈیا آئے تھے۔ انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ انھوں نے دو رمضان کسی ایک محل میں نہیں گزارے۔
خیمہ زن ہونے پر وہاں اتنے حرم، دربار، حکام اور چمڑے اور دوسرے فن پاروں کے اتنے کارخانے ہوتے کہ ایک برطانوی سفیر نے لکھا تھا کہ وہ الیزبتھ کے لندن کے برابر ہوتے تھے۔
اس شاہی خیمے کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اسے ایک جنگ کے دوران لوٹ لیا گیا اور اس کے فاتح جودھپور کے حکمراں اسے اپنے ساتھ چلچلاتے تھر کے ریگستان میں مہران گڑھ لے گئے اور اس کے بعد سے یہ وہیں ہے۔
کرنی سنگھ جسول
مہران گڑھ میں ہزاروں بیش قیمتی نوادرات ہیں جنھیں گذارش پر باہر نمائش کے لیے اکثر لے جایا جاتا ہے۔ فن کے تاریخ دانوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ یہ سرخ خیمہ شاہجہاں کا تھا یا پھر ان کے بیٹے اورنگزیب کا۔
جسول کہتے ہیں کہ ‘اس کے باوجود یہ ہماری اب تک کی سب سے قیمتی اور نادر چیز ہے۔ اس سائز کے مغلوں کے دوسرے تمام خیمے الگ الگ کر دیے گئے ہیں۔’
جسول بتاتے ہیں کہ ‘یہ ایک گیلری میں نمائش کے لیے رکھا گیا تھا لیکن اب یہ پرانا نظر آنے لگا ہے۔ پھر بھی ہر صبح سٹاف اس پر گرد دیکھتے تھے۔ مخمل اور کمخواب و زربفت پر بہت زور پڑ رہا تھا اس لیے ہم نے اسے سٹوریج میں رکھ دیا۔’
اس کا تحفظ میوزیم کو نئی شکل دینے کے ایک بڑے پراجیکٹ کا حصہ ہے تاکہ انڈیا کی ترقی پذیر سیاحت کی دلچسپی کا سامان ہو۔
جب مہران گڑھ کو ایک میوزیم کے طور پر سنہ 1974 میں کھولا گیا تو اسے دیکھنے آنے والوں میں زیادہ تر برطانوی یا امریکی سیاح تھے۔
جسول کہتے ہیں کہ ‘تمام کمروں کو بند کر دیا گیا تھا اور صرف مندر جاری تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے پہلے ڈائریکٹر نے بتایا تھا کہ یہ یہ چمگادڑوں اور اس کی بیٹ سے اٹا پڑا تھا۔’
اب اپنی تاریخ کے بارے میں جاننے کی خواہش رکھنے والے ہندوستانی سیاحوں کی تعداد بیرون ملک سے زیادہ ہے۔
سرخ شاہی خیمے کی صفائی کا کام تین کنززویٹرز کی ٹیم کر رہی ہے۔ ان میں سے ایک شاکسی گپتا کہتی ہے کہ ‘اسے بنانے میں جو محنت کی گئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ کے لیے ان میں کتنی عقیدت تھی۔’
انھوں نے بتایا کہ ‘آج کل اگر آپ بہت خوش قسمت ہیں تو مخمل 20 سال ٹک سکتا ہے۔ اس طرح کی محنت اور پیچیدہ بنائی بہت مہنگی رہی ہوگی۔’
یہ خواتین اگلے سال تک اس محل کے کمروں میں رہیں گی۔
شاکسی کہتی ہیں کہ ‘پہلے پہل یہاں سونا ڈراؤنا اور پراسرار تھا۔ اگر اس خیمے کی دیواریں بول سکتیں تو یہ بتاتیں کہ انھوں نے کتنا کچھ دیکھا ہے۔