آج دنیا بھر میں شطرنج کے بڑے بڑے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں یہاں تک کہ انسان اور مشین کے درمیان ہونے والا مقابلہ بھی خاصی دلچسپی کا سامان رہا ہے
جس نے سوچ سمجھ کر چال چلی وہ مقدر کا سکندر بنا اور جس نے جلد بازی میں غلط چال چلی وہ رہا ناکام۔ الغرض شطرنج عقل و فراست کا کھیل ہے جسے گھنٹوں کھیلا جا سکتا ہے۔
شطرنج ہندوستان کے قدیم کھیلوں میں سے ایک ہے اور تاریخ کے اوراق میں چھٹی صدی عیسوی میں گپتا دور حکومت میں شطرنج کا ذکر ملتا ہے۔ اس وقت یہ چتورنج کے نام سے جانا جاتا تھا۔
٭ شطرنج کے کھلاڑی کی آخری چال
٭ 22 سالہ کارلسن شطرنج کی دنیا کے نئے تاجدار
شطرنج کی بساط ایک چھوٹا سا میدان جنگ ہے جہاں مخالف ایک دوسرے کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بساط کے مہرے فوج کے چار حصوں میں منقسم ہوتے ہیں۔ پیادے، گھڑ سوار، ہاتھی سوار اور رتھ سوار۔
کہا جاتا ہے کہ یہ کھیل ہندوستان سے ایران پہنچا تھا اور فوج کی تربیت کا ذریعہ بنا، ساتھ ہی اس کا تلفظ بدلا اور شطرنج ہوگیا۔ عوام میں مقبولیت کے ساتھ یہ شاہی دربار کا پسندیدہ مشغلہ بن گيا۔ لوگ شطرنج کی بازی میں ڈوب کر رہ گئے۔
شطرنج کے مہرے بہت ہی نزاکت سے بنائے جاتے ہیں
شطرنج سے متعلق ایک دلچسپ کہانی معروف فارسی شاعر فردوسی کے شاہنامے میں ملتی ہے۔ قصہ کچھ اس طرح ہے۔ ہندوستان کے راجا کا ایک سفیر ایران میں نوشیرواں کے دربار میں پہنچا اور بادشاہ کو قیمتی تحائف نذر کیے جن میں شطرنج کی بساط اور ہاتھی دانت کے بنے مہرے بھی شامل تھے۔ سفیر نے دربار میں موجود امرا و وزرا کو شطرنج کھیلنے کے لیے آمادہ کیا اور یہ شرط لگائی کہ جو بازی جیتے گا وہ دوسرے کی برتری قبول کرے گا۔ چنانچہ بازی کا آغاز ہوا۔ ایک دن ایک رات کی مسلسل غوروفکر کے بعد نوشیرواں کے وزیر بزرگ نے بازی جیتی اور انعام و اکرام کا حقدار ہوا۔
15 ویں صدی میں شائع مولانا روم کے دیوان شمس تبریزی میں نہ صرف شطرنج کا ذکر ہے بلکہ ایک قلمی تصویر بھی موجود ہے جس میں شمس تبریز کو ایک ایرانی شہزادے کے ساتھ شطرنج کھیلتے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ کہانیاں اور تصاویر اس بات کے شواہد ہیں کہ ایران اور اس کے گردونواح کے ممالک میں لوگ شطرنج کے دلدادہ تھے۔ شطرنج کا کھیل ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کے ساتھ ایک بار پھر ہندوستان کی سرزمین پر واپس آیا اور شاہی دربار کا حصہ بن گيا۔
چین میں بچوں اور ماں باپ کے درمیان شطرنج کی بازی منعقد کی گئی
امیر خسرو اور ملک محمد جائیسی کی تصانیف میں شطرنج کی مقبولیت کا ذکر ہے۔ ابوالفضل کی آئین اکبری میں شطرنج کو بادشاہ کا پسندیدہ شغل کہا گيا ہے۔ یہ نہ صرف امرا و وزرا کا پسندیدہ کھیل تھا بلکہ حرم اور زنان خانے میں وقت گزاری کا سامان تھا۔ جہانگیر کے حرم کی ایک رکن آرام جان بیگم شطرنج کی ماہر کھلاڑی تھیں۔
اکبر بادشاہ بڑے شوق سے شطرنج کھیلتے اور کھلاتے۔ راوی کا خیال ہے کہ ان کا مقصد امرا و وزرا اور فوج کے اعلی افسران کی سمجھ بوجھ کا امتحان لینا اور ان کی حاضر دماغی کی آزمائش کرنا تھی۔ وہ فوج کے افسران کو بساط پر بچھے مہروں کے ذریعے جنگی قواعد کی پیچیدگیوں سے باخبر کرتے تھے، جیسے شطرنج کی بساط ایک چھوٹا سا میدان جنگ تھا جہاں دو فوجیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتی تھیں۔
معروف بیرونی سیاح منوچی نے لکھا ہے کہ وہ شطرنج کی ایک بازی کا چشم دید گواہ ہے جو خان خاناں اور ایران کے شاہ شفیع کے درمیان تین دنوں تک جاری رہی تھی۔ شہزادی جہاں آرا بیگم فرصت کے اوقات میں اپنے والد شاہجہاں کے ساتھ شطرنج کھیلا کرتی تھی۔
شطرنج کی بساط میں 64 خانے اور 32 مہرے ہوتے ہیں
شطرنج حاضر دماغی اور عقل و فراست کا کھیل ہے۔ اس کی ابتدا کے متعلق ایک کہانی مشہور ہے گوکہ اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ہے۔ دلچسپی کے باعث اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
ہندوستان کا ایک راجا ہر طرح کی تفریح اور کھیل سے بیزار ہوکر ایک نئے کھیل کا خواہاں تھا۔ ایک ایسے کھیل کا جو اس کے دل کو تسکین دے اور دماغ کو قوت بخشے۔ سلطنت کے ایک ریاضی داں کو طلب کیا گیا اور ایک کھیل ایجاد کرنے کا حکم دیا گیا۔ دن رات کے غور و خوض کے بعد انھوں نے شطرنج کی بساط معہ مہروں کے بادشاہ کی خدمت میں پیش کی اور بازی کے اصول و ضوابط سے آگاہ کیا۔
بادشاہ نے خوش ہو کر انعام دینے کا وعدہ کیا۔ ریاضی داں نے بساط کے ہر خانے میں دوگنے چاول رکھنے کی فرمائش کی۔ بساط میں 64 خانے ہوتے ہیں اور 30 خانوں تک پہنچتے پہنچتے ریاست کا سارا چاول ختم ہو گيا اور بقیہ خانوں تک پہنچنے کے لیے سرکاری خزانہ بھی ناکافی ثابت ہوا۔ بادشاہ ریاضی داں کی عقل و فراست پر عش عش کر اٹھا اور اسے اپنے مشیروں میں شامل کر لیا۔
شطرنج کے کھلاڑی فلم کا ایک منظر جس میں سعید جعفری اور سنجیوکمار نے میر و میرزا کے کردار ادا کیے
شطرنج کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ لت اگر لگ جائے تو چھوٹنا مشکل ہے اوربازی شروع ہو جائے تو ختم ہونے تک تو کھیلنے والے دین دنیا سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔
معروف فلم ساز ستیہ جیت رے نے معروف افسانہ نگار منشی پریم چند کی کہانی شطرنج کے کھلاڑی کو فلم کی شکل دی جس میں یہ پیش کیا گیا کہ کس طرح شطرنج کے نشے میں ریاست گنوا دی گئی اور احساس زیاں بھی جاتا رہا۔
آج یہ ایک بین الاقوامی کھیل ہے اور پیشہ ورانہ طور پر کھیلا جاتا ہے لیکن اب وہ فرصت کے اوقات کہاں کہ کوئی اس موبائل کے زمانے میں شطرنج کھیلے؟
٭ سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔