لکھنؤ۔ :۔ درس گاہیں جہاں اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے، انسانوں کو انسان بنایاجاتا ہے لیکن اب ایسی درس گاہوں میں انسان نما حیوان بھی در آئے ہیں جو انسانیت کو شرمسار کرنے کاکوئی موقع نہیں چھوڑتے۔
راجدھانی کی جامعات میں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ ابھی تک تو صرف طالبات کو ہی نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن آج استانیوں کونشانہ بنایا گیا جس نے نئی نسل کی ذہنیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اتنا سب ہونے کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ پہلے لکھنؤ یونیورسٹی میں پھر گوتم بدھ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں طالبات کے ساتھ چھیڑ خانی ہوئی۔ سنیچر کو بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی میں یہاں کی دو استانیوں کو تقریباً دس طلباء کے جھنڈ نے گھیر لیا اور ان سے بدتمیزی کی۔ طلباء کے ذریعہ گھیرنے اور چھیڑ خانی کی اطلاع پھیلنے سے سنسنی پھیل گئی۔ اسسٹنٹ پراکٹر ڈاکٹر منیش ورما نے فوراً لڑکوں کے ہاسٹل میں چھاپہ ماری مہم شروع کر دی ہے۔
حالانکہ ابھی تک کوئی بھی طالب علم گرفت میں نہیں آیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ لکھنؤ یونیورسٹی کے مینجمنٹ گرلس ہاسٹل میں طالبات سے چھیڑ خانی کا معاملہ سامنے آیا تھا لیکن وائس چانسلر نے اس کو خارج کر دیا تھا۔ حالانکہ آل انڈیا اسٹوڈینٹس (آئیسا) ،آل انڈیا پروگریسیو وومین ایسو سی ایشن (اپیوا) اور پبلک یونین فار سول لیبرٹیز( یو پی سی ایل) کے نمائندوں نے جانچ کا مطالبہ کیا تھا لیکن وائس چانسلر نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اسی طرح گوتم بدھ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں بھی ایک طالبہ سے چھیڑ خانی کی گئی تھی۔ رجسٹرار دفتر سے پہلے ایک طالبہ کو دو طلباء نے جبراً پکڑ لیا تھا لیکن گارڈوں نے اس کو آزاد کرایا اس کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ لا علم بنی رہی۔اس طرح اگر دیکھا جائے تو طالبات کے ساتھ چھیڑ خانی کے واقعات بازار و مال کے ساتھ ہی یونیورسٹیوں میں بھی پیش آنے لگے ہیں اس کے باوجود تعلیمی اداروں اور جامعات کے منتظمین اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔
بابا صاحب بھیم راؤ یونیورسٹی میں استانیوں سے چھیڑ خانی اپنی نوعیت کا بالکل الگ واقعہ ہے۔ شرپسند عناصر کے تو حوصلے اگر اتنے بڑھ جائیں کہ وہ طالبات سمیت استانیوں سے بھی چھیڑ خانی کرنے لگیں تو ظاہر سی بات ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے طریقہ کار پر سوالیہ نشان ضرور لگیں گے۔