انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں گذشتہ دنوں ریاست کا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا۔ اس بجٹ میں ریاست کے مذہبی اور تقافتی مرکزوں اور شہروں کے فروغ کے لیے ‘ہماری ثقافتی وراثت’ کے نام سے ایک علیحدہ فنڈ مختص کیا گیا ہے۔
لیکن ریاست کی سب سے اہم ثقافتی اور سیاحتی عمارت تاج محل کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔
آگرہ کے تاج محل کو ہندوستان کے مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنے دور بادشاہت میں تعمیر کرایا تھا۔ وزیر اعلی آدتیہ ناتھ تاج محل کو ‘غیر ہندوستانی’ تصور کرتے ہیں اور ان کے خیال میں انڈیا کی یہ حسین عمارت بھارت کے ماضی کی ثقافت کی عکاسی نہیں کرتی کیونکہ یہ حملہ آوروں کی بنوائی ہوئی ہے۔
اس بحٹ میں ایودھیا، بنارس، متھرا اور چتر کوٹ جیسے ہندو مذہب کے اہم مراکز کی ترقی کے لیے کئی سکیموں کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاج محل اور بعض دوسری عمارتوں اور مقبروں کو تقافتی ورثے کے منصوبے سے الگ رکھا گیا ہے۔ ناقدین نے یوگی حکومت کے اس فیصلے کو ہندوتوا کے ایجنڈے سے متاثر فیصلہ قرار دیا ہے اور ان کی نکتہ چینی کی ہے۔
حکومت نے ایودھیا، بنارس، اور متھرا میں ثقافتی مراکز کی تعمیر اور شہر کے ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے 20 ارب روپے سے زیادہ کی رقم منظور کی ہے۔
بعض مورخین کا کہنا ہے کہ اترپردیش میں ثقافتی وراثت کو صرف ہندو مذہب سے شناخت کرنا ریاست کی مشترکہ وراثت کی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو سبھی مذاہب کی ملی جلی ثقافت اور کلچر کو فرغ دینا چاہیے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ تاج محل کو نظر اندراز کرنے سے سیاحت سے ہونے والی آمدن کو نقصان پہنچے گا۔
آگرہ میں میں تین عالمی ورثے کی تاریخی عمارتیں ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور ان کی سیاحتی ترقی کے لیے مناسب بجٹ کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس اگر اسے نظر انداز کیا گیا تو اس سے سیاحتی سرگرمیوں کو شدید نقطان پہنچے گا۔
اتر پردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ ماضی میں کئی بار ‘محبت کے اس عظیم شاہکار’ سے اپنی نفرت کا اظہار کر چکے ہیں۔ ابھی حال میں انھوں نے کہا تھا کہ اب جب کسی ملک کے سربراہ حکومت یا مملکت انڈیا کے دورے پر آتے ہیں تو انھیں تاج محل کا نمونہ تحفے میں نہیں دیا جاتا کیونکہ وہ غیر ہندوستانی ہے اور ملک کی عکاسی نہیں کرتا۔
انھوں نے کہا کہ اب اہم شخصیات کو ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا تحفے میں دی جاتی ہے۔
آدتیہ ناتھ ایک ہندو سادھو ہیں وہ ہندوتوا کی تحریک سے بہت عرصے سے وابستہ ہیں۔ وہ پانچ بار پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہو چکے ہیں اور ریاست کا وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے وہ مسلمانوں کے خلاف اپنے نفرت انگیز بیانوں کے لیے مشہور ہیں۔
یوگی ہندوتوا کے اس بنیادی فلسفے میں یقین رکھتے ہیں کہ انڈیا صرف انگریزوں کے زمانے میں ہی غلام نہں تھا بلکہ ہندو یہاں ایک ہزار برس قبل یعنی مسلم سلاطین کی حکمرانی کے وقت سے غلام ہیں۔
وہ افغانستان، ایران اور وسط ایشیا سے آئے ہوئے ان سلاطین کو حملہ آور اور لٹیرا قرار دیتے ہیں اور صدیوں تک اس ملک میں رہنے اور یہاں کی ثقافت اور مٹی میں رچ بس جانے کے باوجود انھیں غیر ملکی حملہ آور ہی تصور کرتے ہیں۔
تاج محل کے خالق شاہجہاں کے آبا و اجداد ان سے سو برس قبل انڈیا آئے تھے۔ اس سو برس میں ان کی کئی نسلیں انڈیا میں پروان چڑھیں۔ شاہجہاں ایک ہندوستانی بادشاہ تھا۔ وہ اپنے تیموری اور منگولیائی پس منظر کے ساتھ ساتھ خود کو ہندوستان سے بھی پوری طرح شناخت کرتا تھا۔ انڈیا کا جو تصور آج ہے اس طرح کا انڈیا شاہجہاں کے زمانے میں نہیں تھا۔ جدید انڈیا کو انگریزوں نے تیار کیا اور اسے ایک جدید نیشن سٹیٹ کی شکل دی۔
ہندوتوا کے پیروکاروں کا تصور ہے کہ ہندو، بودھ، جین اور سکھ مذاہب میں یقین رکھنے والے ہی اصل انڈین ہیں۔ مسلم یا عیسائی خواہ وہ انڈیا میں ہی پیدا ہوئے ہوں وہ اپنے مذہبی عقیدے کی طرح اصل انڈین نہیں ہیں۔
اس نظریے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ہندوتوا کے پیروکار اس تھیوری کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ آریہ نسل کے لوگ مختلف گروپوں میں چار ہزار برس قبل وسطی ایشیا سے انڈیا آئے۔ سبھی مسلم بادشاہوں کو حملہ آور اور مسلمانوں کو غیر ہندوستانی قرار دینے کے لیے وہ اس دلیل پر مصر ہیں کہ آرین یہیں انڈیا کے ہی تھے۔
کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حملہ آور تھیوری ہندو قوم پرستی کا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف عام ہندوؤں کو متحد کرنے میں کافی مددگار ہے۔
قوم پرستی کی نئی لہر میں مغل بادشاہ اور ان کی یادگاریں بھی نفرتوں کی زد میں ہیں۔ دہلی میں اورنگزیب نام کی سڑک کسی اور نام میں تبدیل کر دی گئی ہے۔ نصابی کتابوں میں بادشاہ اکبر کے نام ساتھ ‘عظیم’ لکھا جاتا تھا وہ ہٹا لیا گیا ہے۔ اکبر سے جنگ لڑنے والے راجپوت راجہ رانا پرتاپ کو اب ‘گریٹ’ کہا جاتا ہے۔
اتر پردیش کی حکومت ریاست کے ایک شہر مغل سرائے کا نام تبدیل کرنے والی ہے کیوں کہ اس میں مغل نام لگا ہوا ہے۔ تاج محل بھی ایک عرصے سے نفرتوں کی زد میں ہے۔ چونکہ یہ عالمی ورثے کی ایک اہم عمارت ہے اس لیے اس سے منسوب تنازع زیادہ زور نہیں پکڑ سکا۔
لیکن اب مرکز اور ریاست دونوں جگہ ہندوتوا نواز حکومتیں قائم ہیں اس لیے قوم پرستی کی موجودہ لہر میں وہ دن دور نہیں جب آئندہ بحث مسلم حکمرانوں اور ان کی یادگاروں پر ہو۔