سری نگر: کشمیر انتظامیہ نے جمعہ کے دن گرمائی دارالحکومت سری نگر کے 8 پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کرکے علیحدگی پسند قیادت کی طرف سے دی گئی ‘اقوام متحدہ فوجی مبصرین کے دفتر’ تک مارچ کی کال ناکام بنادی۔
کرفیو جیسی پابندیوں کے سبب سری نگر کے پائین شہر میں واقع تاریخی جامع مسجد میں آج مسلسل پانچویں بار نماز جمعہ ادا نہ کی جاسکی۔ سیول لائنز میں اقوام متحدہ کے دفتر سے کچھ دوری پر واقع مسجد شریف سعید صاحب سونہ وارمیں بھی نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وادی میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے قبل اور اس کے بعد چند ایک مقامات پر احتجاجی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں ایک 25 سالہ نوجوان ہلاک جبکہ متعدد دیگر زخمی ہوگئے ۔ سری نگر کے سیول لائنز میں ہائی سیکورٹی زون ‘سونہ وار’ میں واقع اقوام متحدہ فوجی مبصرین کے دفتر کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو خاردار تاربچھا کر اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کرکے بندکردیا گیا تھا۔خیال رہے کہ کشمیری علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے کشمیری عوام کے خلاف روا رکھی جارہی مبینہ زیادتیوں، قتل و غارت گری ، مار دھاڑ ، پکڑ دھکڑ اور حقوق انسانی کی سنگین پامالیوں کے خلاف آج ہڑتال کی کال اور کشمیری عوام کے خلاف ہو رہی مبینہ ظلم و زیادتیوں کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانے کے لئے بعد از نماز جمعہ پر امن احتجاجی مظاہرے کرنے اور سونہ وار میں آستانہ عالیہ سعید صاحب (رح) کی مسجد شریف میں اجتماعی طور نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اس کے روبرو واقع اقوام متحدہ فوجی مبصرین دفتر کے سامنے احتجاجی دھرنا دینے کی اپیل کی تھی۔ تاہم کشمیر انتظامیہ نے سری نگر کے پائین شہر کے بیشتر حصوں جبکہ سیول لائنز کے کچھ حصوں میں سخت ترین پابندیاں نافذ کرکے علیحدگی پسند قیادت کے اقوام متحدہ فوجی مبصرین دفتر کے سامنے مجوزہ احتجاجی پروگرام کو ناکام بنادیا۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سری نگر کے بعض حصوں میں پابندیاں عائد کرنے کا اقدام شہر میں امن وامان کو بنائے رکھنے کے لئے اٹھایا گیا ہے ۔ انہوں نے بتایا ‘صورتحال بہتر رہنے کی صورت میں تمام پابندیاں جمعہ کی شام کو ہٹالی جائیں گی’۔علیحدگی پسند قیادت کی اپیل پر جمعہ کو وادی کے سبھی دس اضلاع میں مکمل ہڑتال رہی جس کی وجہ سے عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ ادھر سری نگر کے پائین شہر اور سیول لائنز کے کچھ حصوں میں جمعہ کو کسی بھی طرح کے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے کرفیو جیسی پابندیاں نافذ رہیں۔سرکاری ذرائع نے بتایا ‘سری نگر میں خانیار ، نوہٹہ ، رعنا واری ، مہاراج گنج ، صفہ کدل،مائسمہ، کرال کڈھ اور رام منشی باغ پولیس سٹیشنوں کے تحت آنے والے علاقوں میں احتیاطی طور پر دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں عائد کی گئی ہیں’۔ تاہم سرکاری دعوے کے برخلاف پائین شہر میں جمعہ کی صبح سے ہی کرفیو جیسا سماں دیکھنے کو آیا۔سیکورٹی فورسز نے پائین شہر بالخصوص نوہٹہ کی بیشتر سڑکوں کو جمعہ کی صبح ہی سیل کردیا تھا جبکہ ان پر لوگوں کی نقل وحرکت کو روکنے کے لئے بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی نفری تعینات کی گئی تھی۔ نوہٹہ کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ تاریخی جامع مسجد کے دروازوں کو جمعہ کی صبح ہی مقفل کردیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں جمعہ کے لئے اذان دینے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ دوسری جانب پابندیوں کے نفاذ کے طور پر نالہ مار روڑ کو ایک بار پھر خانیار سے چھتہ بل تک مکمل طور پر سیل رکھا گیا۔ اس روڑ کے دونوں اطراف رہائش پذیر لوگوں نے بتایا کہ جمعہ کو صبح سویرے اس روڑ پر سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکار تعینات کئے گئے اور وہ لوگوں کو اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔ پابندی والے علاقوں میں واقع اسکولوں، بینکوں اور دیگر دفاتر میں معمول کی سرگرمیاں بری طرح سے متاثر رہیں۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے جمعہ کی صبح پائین شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، نے بتایا کہ پائین شہر میں تمام حساس مقامات پر سیکورٹی فورسز نے اپنی بلٹ پروف گاڑیاں کھڑی کررکھی تھیں۔ پائین شہر کے رہائشیوں نے الزام لگایا کہ سیکورٹی فورسز نے مضافاتی علاقوں سے آنے والے دودھ اور سبزی فروشوں کو اُن کے علاقہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔
صفا کدل سے براستہ عیدگاہ شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو جانے والی سڑک کو تاہم ایمبولینس اور بیماروں کی نقل وحرکت کے لئے کھلا رکھا گیا تھا۔ ادھر سیول لائنز میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے گڑھ مانے جانے والے ‘مائسمہ’ کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو سیل رکھا گیا۔ اس علاقہ میں بڑی تعداد میں تعینات سیکورٹی فورسزاہلکار کسی بھی شخص کو مائسمہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔مائسمہ کے علاوہ تاریخی لال چوک کی طرف جانے والی سڑکوں کو بھی خاردار تار سے سیل کیا گیا تھا۔ کشمیر انتظامیہ نے حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان مسٹر گیلانی اور میرواعظ کو کسی بھی جلسے ، جلوس یا ریلی کا حصہ بننے سے روکنے کے لئے پہلے ہی اپنے گھروں میں نظر بند رکھا ہے جبکہ جے کے ایل ایف چیئرمین یاسین ملک کو بچھوارہ (ڈلگیٹ) جامع مسجد سے اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف پیش قدمی کے دوران حراست میں لے لیا گیا۔ فوجی مبصرین کے دفتر تک مارچ کو ناکام بنانے کے لئے اس کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو خاردار تار سے بند جبکہ ان سڑکوں پر سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکار تعینات رکھے گئے تھے ۔یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے جمعہ کی صبح مذکورہ علاقہ کا دورہ کیا، نے فوجی مبصرین کے دفتر کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو خاردار تار سے بند پایا جبکہ ان سڑکوں پر ڈلگیٹ، گپکار ، سونہ وار اور ٹی آر سی کے نذدیک بلٹ پروف گاڑیاں کھڑی پائیں۔ فوجی مبصرین کے دفتر کی طرف کسی بھی عام شہری کو جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ نامہ نگار نے بتایا ‘میڈیا اہلکاروں کو بھی اقوام متحدہ کے دفتر کے نذدیک جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس نے دفتر کی جانب کسی بھی پیش قدمی کو روکنے کے لئے مختلف مقامات بشمول ڈلگیٹ کراسنگ پرناکے بٹھائے تھے ‘۔ انہوں نے بتایا کہ ایسا ہی ناکہ پانتھہ چوک میں بٹھایا گیا تھا جس پر تعینات سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں سونہ وار کی طرف آنے والی گاڑیوں کو بائی پاس کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہہ رہے تھے ۔ نامہ نگار نے بتایا کہ اقوام متحدہ دفتر کے روبرو واقع آستان عالیہ سعید صاحب (رح) کے دونوں داخلی راستے پر سیکورٹی فورسز کی ایک بڑی تعداد تعینات کی گئی تھی۔ سخت ترین پابندیوں کے سبب سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں مسلسل پانچویں مرتبہ نماز جمعہ ادا نہ کی جاسکی۔
نوہٹہ کے رہائشیوں نے بتایا کہ آج سیکورٹی فورسز کے اضافی اہلکار تاریخی جامع مسجد کے باہر تعینات کردیے گئے اور آج صبح سے ہی کسی بھی شخص کو مسجد کے احاطے کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سری نگر کی اس تاریخی و مرکزی جامع مسجد میں ہر جمعہ کو ہزاروں کی تعداد میں لوگ وادی کے مختلف علاقوں سے آکر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں۔ جامع مسجد میں 23 جون ( جمعتہ الوداع) ، 30 جون اور 7 جولائی کو بھی سخت ترین بندشوں کے ذریعے نماز کی ادائیگی ناممکن بنادی گئی تھی۔ 23 جون کو جمعتہ الوداع کے موقعے پر جامع مسجد کو مقفل کرنے پر ریاستی حکومت کو مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ ڈوگرہ شاہی حکومت کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب تاریخی جامع مسجد میں جمعتہ الوداع کی نمازپر قدغن عائد کی گئی۔ 30 جون کو کشمیری علیحدگی پسند قیادت نیمتحدہ جہاد کونسل اور حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو امریکہ کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کے خلاف نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد احتجاج کرنے کی کال دی تھی اور انتظامیہ نے جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی پر قدغن عائد کرکے وہاں کسی بھی طرح کے احتجاجی مظاہرے کو ناکام بنادیا تھا۔ 7 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان مظفر وانی کی پہلی برسی کے پیش نظر سخت ترین پابندیوں کے نفاذ کے ذریعے جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی ناممکن بنائی گئی تھی۔ 14 جولائی کو ایک بار پھر سخت ترین پابندیوں کے ذریعے نماز جمعہ کی ادائیگی ناممکن بنادی گئی تھی۔ دریں اثنا وادی بھر میں جمعہ کو علیحدگی پسند قیادت کی اپیل پر دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی نقل وحمل معطل رہی۔ بیشتر تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج متاثر رہا۔ شمالی کشمیر کے بارہمولہ سے موصولہ اطلاع کے مطابق بارہمولہ قصبہ اور شمالی کشمیر کے دوسرے علاقوں میں بیشتر دُکانیں اور تجارتی ادارے بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی نقل وحمل معطل رہی ۔ شمالی کشمیر کے قصبہ جات میں سیکورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کی اضافی نفری کو تعینات کیا گیا تھا۔ جنوبی کشمیر سے موصولہ رپورٹ کے مطابق جنوبی کشمیر کے سبھی قصبوں میں مکمل ہڑتال رہی۔ وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام اور گاندربل سے بھی ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئیں۔