لکھنو؛ اردو کے مشہور و مقبول ادیب و نقاد۔مصنف ڈاکٹر نیر مسعود کا آج طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ نیر مسعود طویل عرصے سے بیمار تھے اور صاحب فراش تھے۔اس خبر کے پھیلتے ہی ادبی حلقوں میں رنج و غم بھی پھیل گیا اور لوگ جوق در جوق داکٹر نیر مسعود کی رہائیش گاہ ادبستان پہنچنے لگے۔
داکٹر نیر مسعود کی ولادت لکھنو کے ایک علمی خانوادے میں ہوا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گردھارا سنگھ انٹر کالج سے حاصل کی ۔لکھنو یونورسٹی سے ایم اے فارسی میں کیا اور یہیں انکو شعبہ فارسی میں لکچرر بنایا گیا۔۶۹۹۱ءمیں شعبہ فارسی کے صدر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
ڈاکٹر نیر مسعود نے اپنی تصانیف سے ملک کے اعلی انعامات اور اعزازات حاصل کئے انکو صدر جمہوریہ کا ایوارڈ،ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ وغیرہ کے علاوہ ملک کا اہم ترین سرسوتی سمان اعزاز ملا جو اردو میں صرف دو قلمکاروں کا ہی ملا۔نیر مسعود کے علاوہ شمس الرحمان فاروقی کو یہ اعزاز حاصل ہے۔
نیر مسعود کی متعدد کہانیوں اور افسانوں کا دنیا کی دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔
ڈاکٹر انیس اشفاق جو مرحوم سے خصوصی قربت رکھتے تھے انہوں نے گلوگیر آواز میں کہا کہ اردو ادب کو انکے انتقال سے بڑا خسارہ ہوا ہے اس خلا کا پر ہونا مشکل ہے۔
ڈاکٹر نیر مسعود لکھنو یونیورسٹی میں شعبہ فارسی کے صدر بھی رہ چکے ہیں اور انکے انڈر میں لا تعداد طلبا و طالبات نے تحقیقی کام انجام دیئے۔ ڈاکٹر نیر مسعود درجنون کتابوں کے مصنف تھے اور انکی متعدد کتابوں کے اسلوب اور واقعہ نگاری کو بے پناہ پسند کیا گیا۔
طاوس چمن کی مینا، گنجیفہ،میر انیس، مرثیہ خوانی کا فن، ،عطر کافور،تعمیر غالب، و دیگر کتابوں کے علاوہ سیکڑوں مضامین سے انکی شخصیت نکھری۔
ڈاکٹر نیر مسعود کے عزیز قریب اور دوست رضا علی عابدی نے لندن سے بتایا کہ انکو انتہائی دکھ پہنچا ہے ۔علم اور اردو کی دنیا کا روشن چراغ بجھ گیا۔ اس دور کے بڑے دانش ورنییر مسعود رضو کا اس میدان میں ان کا بدل کوئی نھیں۔ اپنی علمی خدمات کے ساتھ اپنی مختصرکہانیوں کے لئے برسہا برس یاد رکھے جائیں گے۔میر انیس کی جیسی سوانح انہوں نے لکھی، کون لکھ پائے گا۔ بہت یاد آئیں گے
ڈاکٹر نیر مسعود کے والد مسعود حسن ادیب اپنے وقت کے خود بلند پایہ مصنف اور صاحب قلم تھے۔ انکے گھر کا نام اسیلئے ادبستان رکھا گیا،انکے خانوادے کے زیادہ تر افراد صاحب قلم ہیں۔
ڈاکٹر نیر مسعود کے ایک بیٹے تمثال مسعود خود بھی اردو میں ڈاکٹریٹ حاصل کر چکے ہیں اور امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں تعلیم دے رہے ہیں۔ڈاکٹر نیر مسعود کی تدفین کربلا منشی فضل حسین میں کثیر مجمع کی موجودگی میں ہوئی۔تدفین میں ادیبوں،قلمکاروں اور اردو کے شیدائیوں کا ایک برا مجمع تھا۔