کہا جاتا ہے کہ کبھی کبھی سپاہی کی بہادری کا اندازہ اس کے تلوار میان میں رکھنے سے کیا جاتاہے یہ کہاوت ان بہادروں پر زیادہ فٹ بیٹھتی ہے جو امن کے حصول کے لئے کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کرتے کیونکہ امن بنی نوع انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے عوام کے جذبات کو مشتعل کرکے اور ان کا جذباتی استحصال کرکے تالیاں بٹور لینا تو بہت آسان ہے لیکن عوام کو اونچ نیچ سمجھاکر انہیں حقیقت پسندی پر مائل کرنا اور ان کے مشتعل جذبات کے سامنے سد سکندری بن کر کھڑے ہونے کی ہمت بہت کم قائدین دکھا پاتے ہیں۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کے دوران انگریزوں کے خلاف پورے ملک میں زبردست ابال پیدا ہوگیا تھا گاندھی جی نے کرو یا مرو کا نعرہ دے دیا تھا لیکن وہ ہر حال میں تحریک کو پر امن رکھنا چاہتے تھے مگر گورکھپور ضلع کے چوری چورا تھانہ میں تشدد پھو ٹ پڑا اور گاو¿ں والوں نے تھانے میں آگ لگا دی جس میں جل کر کئی پولس والے ہلاک ہوگئے گاندھی جی کو آزادی کے متوالوں کی یہ حرکت اپنے اصولوں اور آدرشوں کے خلاف لگی اور انہوں نے تحریک ملتوی کرنے کا اعلان کردیا ان کے اس اعلان کی کانگریس کے تقریباً تمام بڑے لیڈروں نے مخالفت کی تھی لیکن گاندھی جی نے اپنے اصولوں اور آدرشوں سے سمجھوتہ کرنے سے صاف انکار کردیا تھا گاندھی جی میں عوام کے جذبات کے خلاف بھی سینہ سپر ہونے کی ہمت تھی کیونکہ وہ مخلص بھی تھے اور اصول پسند بھی۔
تقریباً35سال بعد ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکا سے تعلقات استوار کرنے کا سلسلہ شروع کرکے تقریباً ایسی ہی ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ صدر روحانی نے امریکا کے سامنے کسی قسم کی خود سپردگی کردی ہے یا ایران پر امریکا کی بالا دستی قبول کرلی ہے یا اپنے ایٹمی پروگرام کو یکسر ترک کردینے کا اعلان کیاہے بلکہ انہوں نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے ایران کے عظیم تر مفاد کو مد نظر رکھا اور صدر اوبامہ کی طرف سے بڑھائے گئے دوستی کے ہاتھ کو پکڑنے کا حو صلہ دکھایا ہے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیو یارک آئے صدر روحانی کی صدر اوبامہ سے اگر چہ براہ راست ملاقات نہیں ہوئی لیکن دونوں لیڈروں نے ٹیلی فون پر گفتگو کرکے 35سال سے جمی برف کو توڑنے کی جو پہل کی ہے وہ خوش آئند اور قابل تعریف ہے۔ ایران نے امریکا کو شیطان بزرگ اور امریکا نے ایران کو بدی کا محور قرار دے رکھا ہے یہ سابق صدر جارج بش کی جارحانہ نو قدامت پسندانہ سامراج اور صیہونیت نواز پالیسی کا دور تھا خوش قسمتی سے اس وقت ایران کے پاس احمدی نژاد جیسا مرد مجاد صدر تھا جس نے بش کی گدڑ بھپکیوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کی لیکن اب جب بارک اوبامہ نے بہت زیادہ نہیں لیکن تھوڑا سا ہی سہی لوچ دار رویہ اپنایاہے تو حالات کا تقاضہ تھا کہ ایران صدر اوبامہ کی امن مساعی کو تقویت دے اور صدر روحانی نے ہمت اور حوصلہ کا مظاہرہ کیا ۔ یہ بات دیگر ہے کہ تہران واپسی پر انہیں اپنے ہم وطنوں میں سے کچھ کی ناراضگی بھی جھیلنی پڑی اور ان کی گاڑیوں پر جوتا اور گندے انڈے پھینکے گئے لیکن ایک مدبر کے لئے ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی گاندھی جی نے تو اپنے اصولوں اور آدرشوں کے لئے گولی کھائی تھی اور سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا۔
صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران اپنے ایٹمی پروگرام پر ’نتیجہ خیز‘ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔خطاب میں انہوں نے کہا کہ ایٹمی پروگرام کے باعث ایران پر عائد کی گئی پابندیاں غلط ہیں۔انہوں نے شام کے بحران پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کو بین الاقوامی مانیٹرنگ کے تحت لانے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔صدر حسن روحانی نے کہا کہ ’ایران سے خطرہ تخیلاتی ہے اور ایران دنیا کے لیے یا کسی ملک کے لیے خطرہ نہیں ہے۔‘انہوں نے مزید کہاکہ ایٹمی ہتھیار یا وسیع پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کی ایران کے سلامتی اور دفاعی منصوبوں میں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘ایرانی صدر نے کہا اس لیے ایران فوری طور پر نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ اعتماد سازی کی جانب بڑھ سکیں اور مشترکہ بے اعتمادی کو ختم کیا جا سکے۔ایرانی صدر نے خطاب میں ایران پر لگائی جانے والی پابندیوں پر تنقید کی اور کہا ’صاف بات یہ ہے کہ یہ پابندیاں غلط ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں کے باعث سیاسی امرا کو کوئی نقصان نہیں ہو رہا بلکہ عام آدمی ان سے متاثر ہو رہا ہے۔
بی بی سی کے مطابق صدر اوباما نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک ’منفرد موقع‘ کی بات کی جو ایک ایسے وقت میں ہوا جب اس معاملے پر سفارتی مہم عروج پر ہے۔صدر روحانی نے ٹویٹ کی کہ میں اس وقت امریکی صدر اوباما سے بات کر رہا ہوں جس میں ’صدر روحانی نے اوباما سے کہا ’آپ کا دن بہترین گزرے‘۔ صدر اوباما نے جواب دیا ’شکریہ، خدا حافظ‘۔ایرانی صدر نے مزید ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس فون پر گفتگو میں صدر روحانی اور صدر اوباما نے باہمی طور پر جوہری تنازع کے سیاسی حل کے عزم کا اظہار کیا‘۔ایرانی صدر کی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’صدر اوباما نے صدر روحانی کو کہا میں آپ اور ایرانی عوام کی عزت کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری سے خطے میں بڑے پیمانے پر بہتری آئے گی۔ اگر ہم جوہری معاملے پر پیش رفت کرتے ہیں تو دوسرے معاملات جیسا کہ شام کا معاملہ ہے پر بھی مثبت اثر پڑے گا‘۔آخر میں صدر اوباما نے صدر روحانی کو کہا کہ وہ ’ان کے واپسی کے لیے ایک خوشگوار سفر کی دعا کرتے ہیں اور معذرت چاہتے ہیں اگر انہیں نیویارک کی بے ہنگم ٹریفک کا سامنا کرنا پڑا ہے‘۔صدر روحانی کی ٹویٹ کے مطابق صدر روحانی نے کہا کہ ’جوہری تنازع کے حوالے سے سیاسی قوت ارادی کے ساتھ اس کا تیزی سے حل ممکن ہے۔ ہم پر امید ہیں کہ ہم چھ رکنی مذاکرات اور امریکی حکومت کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں جو سامنے آئے گا۔‘صدر روحانی نے آخر میں ’کہا کہ میں آپ کی میزبانی اور آپ کی فون کال کا شکر گزار ہوں۔ آپ کے لیے ایک خوشگوار دن کی تمنا کرتا ہو۔‘
اس سے قبل صدر روحانی کہہ چکے تھے کہ وہ تین سے چھ ماہ کے عرصے میں اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام پر عالمی طاقتوں کے ساتھ سمجھوتہ چاہتے ہیں۔حسن روحانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں اس معاملے پر بات چیت کے سلسلے میں ایران کے رہبرِ اعلا آیت اللہ خامنہ ای کی مکمل حمایت حاصل ہے۔حتمی فیصلہ روحانی پیشوا کا ہو گاایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے17 ستمبر کو تہران میں ایک تقریر میں سفارت کاری میں ’دلیرانہ لچک‘ کا مظاہرہ کرنے کی منظوری دی تھی۔ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے یہ صدر روحانی کو ایک حکم ہے جس کا معنی ہیں کہ آپ دیکھیں کہ امریکہ سے آپ کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں مگر اوباما سے ہاتھ ملانے مت چلے جانا۔حسن روحانی ایک معاہدے کی تجویز دے سکتے ہیں، وہ یہ بھی بیان کر سکتے ہیں کیسے رعایتیں حاصل کر سکتے ہیں جن سے ایران پر لگی پابندیاں اٹھائی جا سکتی ہیں اور عام ایرانی شہری کی زندگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مگر بلاخر یہ روحانی پیشوا ہیں جن کے پاس حتمی فیصلے کا اختیار ہے۔
صدر روحانی نے فلسطین مسئلہ کے حل کے لئے دو مملکتی فارمولہ کی منظوری کا اشارہ دے کر مشرقی وسطی میں قیامن امن کی کوششوں کو بھی بڑی تقویت پہنچائی ہے دیکھنا ہے کہ حماس اور حزب اللہ صدر روحانی کے اس رویہ پر کیا موقف اختیار کرتے ہیں ، بہر حال صدر روحانی اور رہبر اعلا آیت اللہ خامنہ ای نے اگر حقائق کا ادراک کرکے ایران کی خارجہ پالیسی میں لوچ دار رویہ کا سلسلہ شروع کیاہے تو عالمی برادری کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے۔