میانمار سے سمندر کے راستے کشتیوں کے ذریعے اپنی جان بچا کر نکلنے والے روہنگیا مسلمانوں کی کشتیاں سمندر میں ڈوب گئی جس کے نتیجے میں 5 بچے جاں بحق ہوگئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی) کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار کی سرحد پر دریائے نائف کی اختتامی حد پر سمندر میں 3 سے 4 کشتیاں ڈوب گئیں، جس کے نتیجے میں مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
میانمار میں بسنے والے روہنگیا مسلمانوں کی جانب سے دریائے نائف کو عبور کر کے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران کثیر تعداد میں لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
بنگلہ دیش کی جانب سفر کرنے والے یہ افراد مچھلیاں پکڑنے کے لیے استعمال ہونے والی چھوٹی کشتیاں استعمال کر رہے ہیں جو پانی میں ڈوبنے کا باعث بنتی ہے۔
بی جی بی کے ایک افسر الوئسس سنگما کا کہنا تھا کہ روہنگیا پناہ گزینوں سے بھری ہوئی تقریباً 3 سے 4 ایسی کشتیاں سمندر برد ہوئیں تاہم اب تک 5 بچوں کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔
مقامی پولیس چیف نے بتایا کہ حکام ابھی معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں جبکہ اب تک 1 لاکھ 25 ہزار کے لگ بھگ روہنگیا مسلمان سرحد عبور کرکے بنگلہ دیش آچکے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو قانونی حقوق دے۔
چند روز قبل اقوام متحدہ نے ایک بڑے انسانی بحران کے جنم لینے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 25 اگست کو میانمار میں شروع ہونے والے پُر تشدد واقعات کے بعد سے اب تک 1 لاکھ 25 ہزار کے قریب افراد بنگلہ دیش میں داخل ہوئے جن میں سے اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ میانمار کی ریاست رکھائن میں شروع ہونے والے تشدد سے گزشتہ 11 روز میں ایک لاکھ 23 ہزار 600 افراد نے سرحد پار کی جبکہ حالیہ تنازع کے بعد انسانی بحران جنم لینے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
جیسے ہی وزیر اعظم یوگی شامیانے سے ہیلپڈ تک پہنچ گئے، دو جوان افراد نے انہیں ایک سیاہ پرچم دکھایا اور وزیر اعلی کے خلاف نعرے لگائے. پولیس نے دو نوجوانوں کو حراست میں لیا. پرچم دکھانے والے نوجوان کہتے ہیں کہ وہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بچوں کی موت سے ناراض ہیں ، جس کے نتیجے میں انہوں نے وزیراعلی کوکالے جھنڈے دکھائے ہیں.
اس سے پہلے، بی آر ڈی میڈیکل کالج کے 60 سے زائد متاثرین کی موت کے بعد، ایس پی کے نوجوان ونگ نے سینگ یوگی کو سیاہ پرچم دکھایا تھا جو گورکھ پور کے پاس گئے تھے. ایس پی رہنما اور طالب علم یونین کے صدر امان یادو سمیت پانچ افراد، سیاہ پرچم کو سیاہ پرچم کو دکھانے کے لئے حراست میں لیا گیا تھا. لکھنؤ یونیورسٹی کے پروگرام میں شامل ہونے سے قبل بھی، کچھ طلبا نے سیاہ پرچم کو وزیراعلی یوگی کو دکھایا.