میانمار کی ریاست رخائن میں تشدد کی تازہ لہر میں 20 گھرنذرآتش کر دیے گئے اور ایک مسجد کے قریب بم دھماکا ہوا۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق رخائن میں تشدد کی نئی لہر اس وقت سامنے آئی ہے جب آنگ سان سوچی کی جانب سے ایک ہی روز قبل یہ اعلان کیا گیا تھا کہ فوج نے سرحدی علاقوں میں ‘آپریشن’ کو روک دیا ہے۔
خیال رہے کہ میانمار کی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ 25 اگست کو پولیس پر ہونے والے حملوں کے بعد روہنگیا انتہاپسندوں کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنے والے بے گھر افراد کا کہنا تھا کہ میانمار کے فوجی اور بدھ مت کے انتہاپسند انھیں تشدد کا نشانہ بناتے تھے اور ان کے پورے گاؤں کو نذرآتش کردیتے تھے۔
اقوام متحدہ نے میانمار میں فوج کی مہم کو ‘فرقہ ورایت’ سے تعبیر کیا تھا۔
حکومت کے اعلامیے کے مطابق تازہ واقعہ رخائن کے گاؤں ماؤنگڈاز کیائین چونگ میں پیش آیا جہاں 20 کے قریب گھر آگ کی لپیٹ میں آگئے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘سیکیورٹی اراکین نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور آگ کی نوعیت معلوم کی اور معاملے کی تفتیش کی’۔
حکومت کاکہنا ہے کہ دوسرا واقعہ می چونگ زے گاؤں میں ایک مسجد کے قریب بم دھماکا ہوا۔
ان واقعات کی ذمہ داری ‘دہشت گردوں ‘ پر عائد کردی گئی ہے تاہم پولیس پر حملہ کرنے والے گروپ اراکان روہنگیا سلویشن آرمی (اے آر ایس اے) کے حوالے سے بیان میں کچھ واضح نہیں کیا گیا ہے۔
رخائن کے کے دونوں گاؤں میں پیش آنے والے واقعات میں تاحال کسی قسم کے جانی نقصان کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ 25 اگست کے بعد میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر بدترین تشدد کیا گیا تھا جس کے بعد لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں بنگلہ دیش کی جانب سے ہجرت کی تھی جبکہ سیکڑوں کی تعداد میں جاں بحق ہوئے تھے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے بھی میانمار کی حکومت پر دباؤ ڈالاگیا تھا جبکہ مسلح کارروائی کرنے والے گروپ اے آر ایس اے کی جانب سے بھی انسانی بنیادوں پر ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔