ینگون:حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے منگل کے روز میانمار کو راخین میں مسلم باغیوں کے خلاف کارروائی کے نام پر انسانیت کے خلاف جرائم میں مرتکب ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اس کے خلاف کثیر جہتی پابندیوں کے ساتھ ہی اسلحہ کی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔
ہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان میں صاف طورپر کہا کہ مصدقہ ذرائع اور سٹیلائٹ کی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ میانمار انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرچکا ہے ، جس کے لئے اس پر سخت پابندیاں عائد ہونی چاہئیں۔
میانمار حکومت کے ترجمان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت کے خلاف جرائم کا پختہ ثبوت نہیں ہے اور حکومت حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے پابند عہد ہے ۔ اس سے قبل میانمار نے اقوام متحدہ کے اس بیان کو بھی مسترد کردیا ہے ، جس میں عالمی ادارہ نے میانمار حکومت کی کارروائی کو ‘ منظم نسل کشی’ قرار دیا ہے ۔ میانمار حکومت کا کہنا ہے کہ فوج ان باغی حملہ آوروں کے خلاف جنگ لڑرہی ہے جو پولس اور فوجی اہلکاروں پر حملے کررہے ہیں ، شہریوں کو قتل کرتے ہیں اور بستیوں کونذر آتش کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ 25 اگست کو اراکان روہنگیا سلویشن آرمی کے باغیوں کی طرف سے پولس چوکیوں پر بڑے حملے کے بعد راخین میں فوج کی وحشیانہ کارروائی ‘کلیئرینس آپریشن’ میں معصوم شہریوں پر انسانیت سوز مظاہم اور تشدد کی وجہ سے تقریبا ساڑھے چارلاکھ روہنگیا افراد اپنی جان بچا کر بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔ پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور بدھسٹ حملہ آور روہنگیا آبادی کو ملک سے بھگانے کے لئے وحشیانہ تشدد کررہے ہیں اور ان کی بستیوں کو آگ لگا رہے ہیں اور معصوم شہریوں ، خواتین او ر بچوں کو قتل کررہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے قانونی و پالیسی ڈائریکٹر جیمس راس نے کہا کہ میانمار کی فوج ‘کلیئرینس آپریشن’ کے تحت راخین سے روہنگیا آبادی کو بے رحمی سے نکال باہر کررہی ہے ۔ فوج کی کارروائی میں بستیوں میں قتل عام کیا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر گاؤں میں آتشزنی کی گئی ہے ، جو واضح طورپر انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے مطابق ایسے تمام جرائم انسانیت کے خلاف جرائم شمار ہوتے ہیں، جن میں بڑے پیمانے پر منظم حملے کے تحت شہری آبادی کو قتل، عصمت دری، تشدد، ظلم و زیادتی کے ذریعہ در بدر ی، اقدام قتل کا نشانہ بنایا جائے ۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اس نے جرائم کی تحقیقات میں ذرائع کے علاوہ سٹیلائٹ کی تصاویر کا جائزہ لیا ہے ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ شہری آبادی پر وحشیانہ تشدد، دربدری، دیہی آبادی کی نقل مکانی، اجتماعی قتل ، عصمت دری اور دیگر جنسی زیادتی کے جرائم کا بڑے پیمانے پر ارتکاب ہوا ہے ۔
تنظیم نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر متعلقہ ممالک کو فوری طورپر میانمار کے خلاف ٹارگٹ پابندیاں لگانی چاہئے اور اسلحہ پابندی سخت کرنی چاہئے ۔
دریں اثناء، فوج نے اتوار سے اب تک میانمار کی اقلیتی ہندو برادری کے 45 افراد کی لاشیں برآمد کی ہیں۔ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں روہنگیا باغیوں نے قتل کیا ہے ۔ جبکہ دوسری طرفہ اراکان روہنگیا سلویشن آرمی نے صرف سکیورٹی فورس اور پولس پر حملے کا دعوی کیا ہے اور اپنے حملے میں دیہی باشندوں کے قتل سے انکار کیا ہے ۔
سیکڑوں کی تعداد میں ہندو اقلیتی برادری کے افراد بھی بنگلہ دیش پہنچے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ فوجی دستے اور بدھسٹ حملہ آور ان کے خلاف پرتشدد حملے کررہے ہیں۔ پرتشدد کارروائی سے جان بچا کر بہت سارے ہندو افراد میانمار کے شہری علاقوں میں پناہ لی ہے ، جن کو روہنگیا باغیوں نے حکومت کے لئے جاسوسی کرنے کے شبہ میں تشدد کا نشانہ بنایا ہے ۔