مقبوضہ بیت المقدس ؛ امریکی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد مسجد اقصیٰ کی دیوار براق کو صہیونی ریاست کا حصہ قرار دے دیا۔
تاہم فلسطینی انتظامیہ نے مقبوضہ بیت المقدس کی جغرافیائی حدود اور دینی و تاریخی شناخت میں تبدیلی سے متعلق کسی بھی اقدام کو ناقابل قبول قرار دے دیا ہے۔ فلسطینی انتظامیہ کے ترجمان نبیل ابوردینہ نے ہفتے کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدے دار کا وہ بیان ناقابل قبول ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا دیوار گریہ کو اسرائیل کا جز تصور کرتا ہے۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کے نزدیک تاریخی طور پر دیوار براق کہلانے والی مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار کو قابض یہود دیوار گریہ کہتے ہیں۔ ابو ردینہ نے مزید کہا کہ یہ نیا موقف اس بات کی ایک بار پھر تائید کرتا ہے کہ امریکا امن عمل سے مکمل طور پر باہر ہوچکا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ میں فلسطین کے مستقل مندوب ریاض منصور نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ فلسطینی وفد مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اعلان کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کر رہا ہے، جس پر رائے شماری پیر تک متوقع ہے۔ فلسطین کے سرکاری ریڈیو سے گفتگو میں ریاض منصور نے کہا کہ ہم نے سلامتی کونسل کے تمام رکن ممالک کو یہ پیغام بھجوا دیا ہے کہ ہم کسی بھی وقت یہ قرارداد پیش کرنے اور اس پر رائے شماری کرانے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ قرارداد کا متن اقوام متحدہ کی سابقہ قراردادوں کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے اور امید ہے کہ 15 میں سے 14 ارکان اس کی حمایت کریں گے۔ ادھر علمائے امت کانفرنس نامی تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ قابض صہیونی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوششوں کے خلاف دستور جاری کرے گی۔ علمائے امت کانفرنس کی دستورساز کمیٹی کے ترجمان ڈاکٹر وصفی عاشور ابوزید نے کہا ہے کہ یہ دستور پیر کے روز استنبول میں جاری کیا جائے گا۔ ڈاکٹر وصفی کا مزید کہنا تھا کہ اس دستور کا مقصد بعض تنظیموں اور اداروں کی جانب سے قابض صہیونی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی مہم کو ناکام بنانا ہے، کیوں کہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت مسئلہ فلسطین سے دستبرداری کے مترادف ہے۔ ادھر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ بیت المقدس کا فلسطینیوں اور عالم اسلام کے ہاتھ سے نکل جانا انتہائی خطرناک ہے۔ اگر امت مسلمہ بیت المقدس کو نہ بچا سکی تو مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور خانہ کعبہ کا تحفظ و دفاع بھی مشکل ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر نے بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرکے مشرق وسطیٰ میں تباہ پھیلانے والا بم گرا دیا ہے۔ استنبول میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوان نے کہا کہ بیت المقدس کا دفاع پوری امت مسلمہ کا دفاع ہے۔ اگر ہم بیت المقدس کا تحفظ نہ کرسکے تو تمام عالم اسلام کے دارالحکومت خطرے میں رہیں گے۔ اگر بیت المقدس ہاتھ سے گیا تو مسلمان قبلہ اول سے محروم ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ امریکی اعلان میں بیت المقدس کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور پورے عالم اسلام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدر کا اعلان عالم اسلام کی آزمایش کا ایک تجربہ ہے۔ اگر عالم اسلام نے اب بھی بیداری اور ذمے داری کا مظاہرہ نہ کیا تو کل ہم مکہ اور مدینہ جیسے مقامات سے بھی محروم کیے جاسکتے ہیں۔ اردوان نے کہا بیت المقدس ہمارے پاس ہمارے آباؤ اجداد کی امانت ہے اور ہمیں تا قیامت اس کی حفاظت کرنا ہے۔ اس سے قبل ترک صدر کہہ چکے ہیں کہ ہم امریکی اقدام کے خلاف سلامتی کونسل میں جائیں گے۔ اگر امریکا نے ویٹو کے ذریعے ہمیں روکا تو جنرل اسمبلی کے ذریعے امریکا کے غیرقانونی اقدام کو منسوخ کرانے کی کوششیں کریں گے۔