مرد کو خدائے ذوالجلال نے عورت کا نگہباں بنایا ہے۔اس کا آقا،سردار،زندگی کے نشیب و فراز میں محفوظ سائباں مہیا کرنے والا محافظ بنایا ہے۔مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کے لیے بےسروسامانی میں ایک سایہ دار چھتنار فراہم کرے اورتیز دھوپ میں سایہ بن جائے۔
یہ کوئی افسانہ نہیں،احکامات الہیٰ کی روشنی میں جاری شدہ حقائق ییں مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ان کا فقدان ہے۔ ان پہ عمل پیرا ہونے والا ہر سطح پہ تنقید کا سامنا کرتا ہے۔زن مرید کا لقب مل جاتا ہے یا بے وقوف و احمق کہلاتا ہے۔
میاں بیوی کے رشتے میں قباحتیں پیدا کرنے والے بہت قریبی لوگ ہوتے ھیں۔شوہر کے ماں باپ شوہر کے بہن بھائی ۔اور سونے پہ سہاگہ جب خاتون کے رشتےدار اسے اس صورتحال سے نپٹنے کے لیے بلاضرورت مشورے دینے لگتےہیں۔
پھر یاتو نیا پار لگ جاتی ہے یا بیچ بھنور میں ڈوب جاتی ہے۔ بدقسمتی سے شادی کے ابتدائی دن جب دو مختلف لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے وقت چاہیے ہوتا ہے وہاں جوائنٹ فیملی سسٹم کے مصداق شوہر کے قریبی رشتے دار اعلیٰ ظرفی کے سارے اسباق فراموش کر بیٹھتے ہیں۔چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی بڑی غلط فہمیوں کا باعث بنتی ہیں اوراکثر نئے شادی شدہ جوڑے بہت کم عرصے میں ہی علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں۔
جوائنٹ فیملی سسٹم اسلامی روح کے مطابق ہے یا نہیں یہ ایک سیر حاصل بحث ہے مگریہ میاں بیوی کے رشتے کو بےروح ضرور کر دیتا ہے۔ خوامخوہ پیدا ہونے والی غلط فہمیاں جب تک اپنی عمر پوری کرتی ہیں ان کی عمر کے کئی سال ان غلط فہمیوں کی دیمک چاٹ چکی ہوتی ہے۔کئی رشتے دار خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جو مرد و عورت کے درمیان محبت اور ہمدردی کو پروان چڑھنے نہیں دیتیں۔
یہ کہہ کر کہ نجانے ان کا مسئلہ کیا ہوتاہے، ہمارے دور میں ایسا کب ہوتا تھا۔ہم نے بھی چلتے پھرتے اتنے بچے پیدا کیے، آجکل کی لڑکیاں تو مکر کرتی ہیں۔ڈرامے کر کے شوہر کی توجہ حاصل کرتی ہیں۔
ان باتوں سے شوہر صاحب تو بےنیازی کی بکل مار ہی لیتے ہیں ، آنے والی لڑکی طنزیہ باتوں کے نشتر سہہ کے اپنی ذات کے بھنور میں ڈوبتی رہتی ہےمگر پتوار کسی اور کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اورمانجھی کو اس کے ڈوبنے یا تیرنے سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ اس کے دل و دماغ میں اس کی خامیاں اس قدر راسخ ہوچکی ہوتی ہیں کہ اسے وہ ناکارہ وجود لگنے لگتی ہے۔
اس کی نظر بھٹک کے باہرکھلے پھولوں پہ پڑنے لگتی ہے اور آنگن میں کھلا گلاب سرخ، گلابوں کے موسم میں کالا پڑ جاتا ہے۔جہاں دل کالے اور نیتیں میل ذدہ ہوں وہاں سیج کا رنگ دوپہر کی دھوپ جیسا پیلا ہوجاتا ہےاورجذبوں کی رمق ماند پڑجاتی ہے۔
ہم بنظرعمیق دیکھیں تو کتنے گھروں میں معصوم لڑکیاں شادی کے نام پہ استحصال کا شکار ہیں ۔ کچھ قسمت کی ماریاں وہ بھی ہیں جو شادی شدہ ہو کے بھی کنواری لڑکیوں یا بیواؤں جیسی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ان کے رکھوالے انہیں گھر والوں پہ چھوڑ کے خود بیرون ملک عازم سفرہوتے ہیں۔
وہ زندگی کے سردو گرم موسموں میں تنہائی کا چرخہ کات کے زندگی کے دن تب تک پورے کرتی ہیں جب تک بالوں کی اماوس رات میں آدھے چاند کی ادھوری چاندنی جھلکنے لگتی ہے ۔اپنے خزاں رسیدہ وجود کے ساتھ وہ اس بہار کی منتظر رہتی ہے جو کبھی نہیں آتی۔
ہر مرتبہ شوہر کی آمد ایک نوزائیدہ وجود کا تحفہ دیتی ہے مگر ننھے وجود کی ہراونچ نیچ کا سامنا وہ تنہا کرے گی اور کیسے کرے گی،سے معلوم۔۔۔ اسے اپنے بچوں کے بچپن کو دیکھنےکی فرصت نہیں ملتی ۔ریں ریں کرتے وجود کب جوانی کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں، ماں کو باورچی خانے سے باہرآ کے دیکھنےکا موقع ہی نہیں ملتا اور جس کے ساتھ وہ قبولیت کے مراحل سے گزرتی ہے وہ اسے رد کر کے اپنی زندگی اس رخ سے جیتا ہے جسے سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔
ایسے میں کہیں پاؤں کسی لغزش کا شکارہوجائیں تو ایک بھول بھی معاف نہیں ہو گی کہ وہ ناکارہ ،بے وارث وجود ہے۔ جہاں بڑھاپے کی آمد کا نقارہ بجتا ہے تو شوہر بھی اپنا مال اسباب سمیٹ کے آ موجودہوتا ہے جب اس عورت کو کسی ساتھ کی آرزو اور کسی وجود کی آس نہیں ہوتی۔اپنی ذات کے سرد خانے میں مقید لاش نما عورت شادی شدہ کہلائی جا سکتی ہے؟
نہیں نا۔میرے لوگو لوگ اہم ہیں نظام نہیں۔ مشکلیں پیدا کرنے سے خواہشات تو پوری ہو جاتی ہیں مگر آسانیاں نہیں ملتیں۔کسی جوائنٹ فیملی سسٹم کی بنیاد انسانیت کے ناطے بھی دیکھنے میں نہیں آئی سب اذواج مطہرات اپنے حجروں میں رہا کرتی تھیں۔کہیں اتفاق و یگانگت کے نام پہ کمزور مخلوق کا استحصال نہیں کیا گیا۔ اسلام کے حوالے سے سے گو مختلف رائے موجود ہیں۔کئی مکتبہ فکر کا انداز بھی جداگانہ ہے کہ اسلام اجتماعی زندگی کا داعی ہے۔اتحاد و اتفاق پہ زور دیتا ہے۔
اسلام جبر کا قائل نہیں،فتنہ فساد کی بجائے باہمی تعاون کی ترغیب دیتا ہے۔
مگراسلام کئی خاندانوں کو اکھٹا رکھنے کی بجائے ان کے اندر باہمی احساس کو اجاگر کرنے پہ زور دیتا ہے۔ایسا نہ ہوتا تو پردے کی ضرورت اور احساس تحفظ پہ زور نہ دیا جاتا۔ جب دل ہی نہ ملتے ہوں تو اکٹھے رہنے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟باہمی تعاون کی بجائےمقابلے بازی ہو تو ایک خاندان کی بجائے مرغیوں کاڈربہ بن جاتا ہے جہاں مختلف ذہنیتوں اور مختلف نیتوں کے لوگ رہتے ہیں۔
ایک دوسرے سے مقابلے بازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں اکثر رقابت بازی کا رحجان جنم لے لیتا ہے۔نرم دل لوگ بنجر زہنوں کے ساتھ یا تو احساس سے عاری ہو جاتے ھیں یاوقت سے پہلے اپنے حصے کی مٹی اوڑھ کے سو جاتے ہیں۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جوائنٹ فیملی سسٹم کی مخالفت دراصل والدین کی اطاعت گزاری سے پرہیزہے حالانکہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ والدین کی طرف سے ہونا چاہئے۔
مشترکہ خاندانی نظام مربوط شکل اختیار کر سکتا ہے اگر بے جا مداخلت سے کسی کی ذات پہ کیچڑ اچھال کے ان کا رہنا محال نہ کیا جائے مگر ایسے خاندان آپ کو لاکھوں میں کوئی ایک ملے گا جہاں ہر رشتے کو احترام دیا جاتا ہوگاورنہ توہر گھر میں بہو کی صورت ایک ڈائن موجود ہے جس کا مقصد ان کے بھائی اور بیٹے کو ان سے الگ کرنا ہے۔اور بہو کواس کے مقصد میں ناکام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا جینا محال کر دیا جائے۔اس کی ذات ذرہ بے نشاں بن جائے،اگرتب بھی تسکین نہ ہوتوطلاق کا طوق اس کے گلے میں پہنا کے اسے اذن رخصت دو اور کسی نئی لڑکی کے گلے میں غم کا طوق پہنانے کی مہم پہ چل پڑو۔