::شارلین پورٹرواشنگٹن‘ :زمینی فضا اور سمندر مسلسل اور قابل پیمائش طور پر گرم ہو رہے ہیں اور یہ امکان ہے کہ اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی ذمہ دار پچانوے فیصد یا اس سے زائد، انسانی سرگرمیاں ہیں۔ اس سائنسی شعبے میں مطالعہ کرنے والے دنیا کے ممتاز ادارے “موسم کی تبدیلی کے بین الحکومتی پینل” (آئی پی سی سی) نے اسٹاک
ہوم میں 27ستمبرکو اپنے تحقیقی نتائج شائع کئے۔
رپورٹ تیار کرنے والے آئی پی سی سی کے ورکنگ گروپ کے شریک چیئر پرسن چن داہے نے کہا کہ لاکھوں کی تعداد میں مختلف النوع آزاد شواہد کی بنیاد پر اکٹھے کیے گئے سائنسی مشاہدات سے آئی پی سی سی نے استفادہ کر کے یہ معلوم کیا ہے کہ فضاءاور سمندر گرم ہو گئے ہیں، برف کی بڑی مقدار کم ہو گئی ہے، اوسط عالمی سطح سمندر بلند ہوئی ہے اور گرین ہاو¿س گیسوں کے ارتکازمیں اضافہ ہوا ہے۔ چن، چینی موسمیاتی ادارے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ان نتائج کی آئی پی سی سی کے 195 ممالک کے سائنسی ماہرین توثیق کرتے ہیں اور وہ 6 سال پہلے جاری کی گئی رپورٹ پر جدید ترین نتائج کی روشنی میں نظرثانی کرتے ہیں۔
آئی پی سی سی کی پریس ریلیز کے مطابق موسم کی حدت بالکل واضح ہے۔ 25 سال قبل اپنے قیام کے بعد آئی پی سی سی کی یہ ذمہ داری رہی ہے کہ وہ فیصلہ سازوں کو مفصل اور متوازن سائنسی معلومات مہیا کرے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکیسویں صدی کے آخر تک انیسویں صدی کی نسبت سطح زمین کا درجہ حرارت دو درجے سنٹی گریڈ زیادہ ہو گا۔
چن کے ساتھی سوئٹزرلینڈ کی برن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے شریک چیئر پرسن تھامس سٹاکر نے کہا کہ لمبے عرصے تک چلنے والی گرمی کی لہریں زیادہ تواتر کے ساتھ اٹھیں گی۔ جیسے جیسے زمین گرم ہو گی، کچھ استثناءکے ساتھ، موجودہ بارانی خطوں میں زیادہ بارشیں ہوں گی اورخشک خطوں میں کم بارشیں ہوں گی۔
سٹاکر نے یہ بھی کہا کہ موسمی تبدیلی اور اس کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے انسانوں کی پیدا کردہ گرین ہاو¿س گیسوں (جی ایچ جی) کے اخراج کو کم کرنے کے لیے بہت زیادہ اور پائدار قسم کی کمی کرنے کی ضرورت ہو گی۔
آئی پی سی سی کے نتائج کے ردعمل میں27 ستمبر کو امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے کہا کہ صرف انسان دنیا کو اس کے بد ترین اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اگر یہ خطرے کی گھنٹی نہیں ہے تو پھر مجھے نہیں پتہ کہ وہ کیسی ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کبھی کوئی ایسا مسئلہ ہو سکتا ہے جو بڑے پیمانے پر تعاون، شراکت کاری اور پر عزم سفارت کاری کا متقاضی ہو، تو یہ ہے۔
آئی پی سی سی کی رپورٹ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے افتتاحی ہفتے کہ آخر میں آئی ہے۔ دنیا کے چھوٹے جزائر پر واقع ممالک نے اسمبلی سے درخواست کی ہے کہ وہ موسم کی تبدیلی کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے جلدی سے اقدامات اٹھائیں کیونکہ اس تبدیلی سے ان جزائر پر بسنے والی اقوام کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
جزائر مارشل کے صدر کرسٹوفر لوئک نے 25 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک حقیقی قیادت کے لیے جتنی سنگین ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔
صدر اوباما نے جون میں ایک نئے ایکشن پلان کا اعلان کیا تھا جس میں امریکہ نے اندرون ملک ایک صاف توانائی کی معیشت اختیار کرنے کے اقدامات کے سلسلے کاعزم کیا ہے۔ انہوں نے اس تبدیلی میں دیگر اقوام کی راہنمائی کے امریکی ارادے کا اظہار بھی کیا۔ یہی پیغام کیری نے بھی دہرایا۔
کیری کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم پوری دنیا میں اپنے شراکت کاروں کے ساتھ مل کر آلودگی کے اخراج کو کم کر نے، اپنی توانائی کی معیشت میں تبدیلی لانے اور موسم کی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے غیرمحفوظ ترین ممالک کی، مضبوط منصوبوں کے ذریعے مدد کریں گے۔ انہوں نے اس خیال کو رد کیا کہ آئی پی سی سی کی رپورٹ اور موسمی تبدیلی کے ایجنڈے کی بنیاد سیاست پر ہے۔کیری نے کہا کہ کوئی ایک ملک دوسرے ملک سے مطالبہ نہیں کررہا بلکہ سائنس ہم سب سے یہ عملی کام کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
موسمی تبدیلی پر سیاسی امریکی مباحثہ اکثر سائنسی نتائج کی صحت اور جی ایچ جی کے اخراج سے ہونے والے نقصانات میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ حالیہ مہینوں میں اوباما، کیری اور توانائی کے بارے میں اعلی امریکی حکام کہہ چکے ہیں کہ یہ سب دلائل بے جان ہیں۔
وزیر توانائی ارنسٹ مونز نے مئی میں حلف اٹھانے کے موقع پر کہا کہ مجھے اس چیز پربحث کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں جو بحث کے قابل نہیں۔ اس سے قبل امریکی وزارت توانائی میں بحیثیت ماہر طبیعات کام کرنے والے مونز نے بالکل واضح انداز میں اس غالب سائنسی ڈیٹا کے مجموعے کی تائید کی جس کے مطابق موسمی تبدیلی اور اس سلسلے میں انسانی سرگرمیوں کا کردار ایک یقینی عمل ہے۔
آئی پی سی سی کے ورکنگ گروپ کے2500 صفحات کے اس جائزے میں لاکھوں فضائی اور سمندری مشاہدات سے استفادہ کیا گیا ہے اور9000 سے زائد پہلے سے شائع شدہ مقالات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے دیگر نتائج مندرجہ ذیل ہیں:
گزشتہ تین عشروں کے دوران ہر ایک عشرے میں سطح زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھتا رہا ہے۔
گرین لینڈ اور انٹارٹکا کی برفانی تہہ کی کیمیت کم ہوتی جارہی ہے اور تقریبا پوری دنیا میں گلیشیئر سکڑتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ 150 سال میں سطح سمندر میں اضافے کی شرح گزرے ہوئے 2000سالوں کے اوسط اضافے سے بڑھ چکی ہے۔