سانحہ قصور جس میں 300 بچوں سے جنسی زیادتی کر کے ویڈیوز بنائی جاتی تھیں وہ حکومت نے دبا دیا تھا۔ وہ قصہ بین الاقوامی سطح پر پھیلے ہوئے چائلڈ پورن بزنس سے جڑا ہوا تھا اور یہ کروڑوں روپے کی مارکیٹ ہے۔ مقامی سیاستدان ملوث تھے اس میں اور شاید اب بھی مقامی سیاست دان ہی ملوث نکلیں کہ پولیس ملزم کا غلط خاکہ شائع کر رہی ہے۔ سی سی ٹی وی میں نظر آنے والی فوٹو میں صاف نظر آ رہا ہے کہ بچی کو لے کر جانے والے درندے کی داڑھی ہے اور پولیس نے جو خاکہ جاری کیا ہے اس میں بندے کی داڑھی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ سی سی ٹی وی میں نظر آنے والا بندا لمبے منہ والا ہے جب کہ جس کا خاکہ جاری گیا ہے اس کا چہرا گول مٹول ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب سی سی ٹی وی میں بندا صاف نظر آ رہا ہے تو اس کا خاکہ کیوں تبدیل کیا گیا ہے؟ آئیے جانتے ہیں۔
جب 300 بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا اس وقت بچوں نے مجرم بھی شناخت کر لیے تھے۔ وہ گرفتار ہوئے تھے مگر پولیس نے پھر چھوڑ دیے۔ اس کی وجہ بھی سن لیں۔ مقامی سیاستدان جو کہ ن لیگ کے تھے وہ بچوں کے ساتھ بدفعلی کی ویڈیوز بنا کر مہنگے داموں بیچنے کے کاروبار میں ملوث تھے۔ یہ سارا کام ان کی زیرِ نگرانی چل رہا تھا۔
موضوع تو تکلیف دہ ہے مگر بہ طورِ قوم ہم ننگے ہو چکے ہیں لہٰذا تفصیل سے روشنی ڈالنے میں مجھے کوئی شرم نہیں۔ پورن انڈسٹری (گندی فلموں کی صنعت) کی کئی اقسام ہیں جن میں سب سے گھناؤنی صنعت چائلڈ پورن کی ہے۔ اور چائلڈ پورن کی اقسام میں سے مزید سب سے گھٹیا ترین صنعت پیڈوفیلیا پورن کی ہے۔ پیڈوفیلیک پورن میں بالغ مردوں اور بوڑھے کو دو سے چودہ سالہ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتے دکھایا جاتا ہے۔
آپ کو یہ عجیب لگ رہا ہو گا مگر مغرب کے اندر باقاعدہ تحریکیں چل رہی ہیں کہ جس طرح ہم جنس پرستوں کی شادی کےلیے قوانین بنائے گئے ہیں اسی طرح پیڈو فیلیا کےلیے بھی آزادی دی جائے۔ یورپی ممالک کے کئی پارلیمینٹیرئنز ہیں جن پر پیڈوفیلیا یعنی بچوں سے جنسی عوامل میں ملوث رہنے کے الزامات لگ چکے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کو سزا بھی ہو چکی ہے۔
وہ لوگ اپنی جنسی تسکین کےلیے ایسی ویڈیوز ہزاروں ڈالرز میں خریدتے ہیں۔ ان ویڈیوز کا کاروبار ڈارک ویب پر کیا جاتا ہے اور ادائیگی کے طریقے ایسے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا کہ خریدار کون ہے اور بیچنے والا کون۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہاں پر جبری زنا کی ویڈیوز بھی فروخت ہوتی ہیں کیوں کہ مغرب میں بیٹھے امیروں کی بڑی تعداد ایسی ویڈیوز کی گاہک ہے۔
2015 قصور کا جنسی سکینڈل منظرِ عام پر آیا تو اس وقت پورا ملک ہل کر رہ گیا تھا۔ قصور کے حسین والا گاؤں میں 300 کے لگ بھگ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور ان کی ویڈیوز بنائیں جاتیں۔ اب قصور میں 12 بچیاں جنسی تشدد کے بعد قتل ہوئیں۔ ڈی این اے رپورٹ ہر کیس میں یکساں ہے مگر پولیس بندا نہ تلاش کر سکی۔
ایم پی اے کی گاڑی کو آگ لگانے والا بندا قصور پولیس نے ایک دن میں گرفتار گرفتار کر لیا ہے مگر بارہ بچیوں کا قاتل ایک سال گزرنے کے باوجود گرفتار نہ ہو سکا، نا ہی زینب کو انصاف مل سکا۔ یہ علاقہ حلقہ پی پی 178 میں آتا ہے یہاں کا ایم پی اے ملک احمد سعید خان ہے جس کا تعلق ن لیگ سے ہے۔ یہ بندا پنجاب حکومت کے ترجمان ایم پی اے ملک احمد خان کا کزن ہے۔
اور اسی ملک احمد سعید خان کے دباؤ پر 300 بچوں سے زیادتی کا کیس دبا دیا گیا تھا۔ پچاس کے لگ بھگ لوگ گرفتار ہوئے تھے مگر ایک ایک کر کے سب چھوڑ دیے گئے۔ دو بندوں سے اعتراف کروایا گیا جنہیں سپریم کورٹ سے سزا ہوئی۔ باقی تمام لوگ چھوٹ گئے اور پھر سے اسی جبری زنا والے کام میں لگ گئے۔ اس کیس میں ن لیگ کی مل…