چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ زینب قتل کیس میں پنجاب حکومت اور پولیس غیرسنجیدگی دکھا رہی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل بنچ نے قصورمیں بچوں سے زیادتی کے واقعے کے از خود نوٹس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ڈی جی فرانزک اور جے آئی ٹی کے سابق سربراہ ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدا بخش پیش ہوئے تاہم آئی جی پنجاب عارف نواز عدالتی حکم کے باوجود نہیں آئے۔
ڈی جی فرانزک نے عدالت کو بتایا کہ قصور میں 2015 سے اب تک 6 بچیوں میں ایک ہی شخص کا ڈی این اے ملا ہے اور زینب سے ملنے والا ڈی این اے میچ کرگیا ہے۔ ان واقعات میں ملوث شخص سیریل کلر ہے۔ اب تک ایک ہزار لوگوں کے ڈی این اے ٹیسٹ ہوچکے ہیں اور اب اس بات کو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ملزم کا تعلق قصور سے نہیں۔
عدالت نے زینب قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سابق سربراہ ایڈیشنل آئی جی ابوبکرخدا بخش سے استفسار کیا کہ بچی کے اغوا اور قتل کا پہلا واقعہ کب پیش آیا۔ جس پر انہوں نے بتایا کہ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا پہلا واقعہ جون 2015 میں ہوا، اس وقت بھی میں ہی جے آئی ٹی کا سربراہ تھا۔ اس قسم کے واقعات میں سیریل کلر ملوث ہے اور اس کی گرفتاری کے لیے تفتیش جاری ہے۔
جسٹس صداقت علی خان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے 36 گھنٹے کی مہلت دی تھی لیکن ملزم گرفتار نہیں ہوا، آپ صرف ڈی این اے کی رپورٹ کا انتظار نہ کریں، آپ کے پاس ملزم کو گرفتار کرنےکے لیے بے شمار طریقے ہیں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور ملزم کو جلد گرفتار کریں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اور پولیس تسلیم کر لے کہ انھوں نے غفلت دکھائی، آپ کی تفتیش 2015 میں شروع ہو جانی چاہیے تھی، جو کچھ آپ اب کررہے ہیں وہ پہلے کیا ہوتا تو زینب کا واقعہ نہ ہوتا۔ پنجاب حکومت اور پولیس غیرسنجیدہ ہے۔ آئی جی پنجاب 17جنوری کو مکمل ریکارڈ کے ساتھ پیش ہوں۔ کیس کی مزید سماعت بدھ کو ہوگی۔