امریکی نائب صدر مائیک پینس نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کا سفارتخانہ آئندہ سال تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیا جائے گا۔
امریکی نائب صدر مائیک پینس نے پیر کو صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ امریکا آئندہ سال اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرے گا۔
انھوں نے اسی کے ساتھ اسرائیل کے تحفظ کو امریکا کی ذمہ داری قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکا اسرائیل کے تحفظ میں کوئی کوتاہی نہیں برتے گا۔
امریکا کے نائب صدر نے کہا کہ امن معاہدے کو اسرائیل کے تحفظ کا ضامن ہونا چاہئے۔ امریکا کے نائب صدر نے اسی کے ساتھ فلسطینی رہنماؤں سے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات شروع کریں۔ مائیک پینس نے صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران ایسی حالت میں فلسطینی رہنماؤں سے امن مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ مائک پینس سے کوئی بھی فلسطینی رہنما ملاقات نہیں کرے گا۔
صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ میں عرب اراکین نے مائیک پینس کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔ اسی کے ساتھ بعض اراکین پارلیمنٹ نے مائیک پینس کے خلاف نعرے لگائے اور ان کے قریب جانے کی کوشش کی لیکن سیکورٹی اہلکاروں نے انہیں گرفتار کر لیا۔
اس کے علاوہ مزاحمتی فلسمطینی تنظیموں کی اپیل پر غزہ، غرب اردن اور بیت المقدس میں پیر کو بھی فلسطینی عوام نے مظاہرے کر کے امریکی نائب صدر کے دورے کی مذمت کی۔ فلسطینی مظاہرین نے امریکی نائب صدر کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ اور امریکی پرچم بھی نذرآتش کیا۔
صدر محمود عباس نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات رکاوٹ ہیں۔ یورپی یونین کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بعد تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کو عمل شکل دینے کی راہ ہموار ہوگی اور اسرائیل پر بھی دباؤ بڑھے گا۔
انہوں نے کہا کہ یورپی یونین عالمی قوانین کی روشنی میں قضیہ فلسطین کے عادلانہ اور منصفانہ حل کے لیے فلسطینی قیادت کے ساتھ مل کر کام کرے۔
ایک سوال کے جواب میں محمود عباس نے کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ طے پائے تمام معاہدوں پر عمل درآمد کے پابند ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی پابندی نہیں کی جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ایک فریق دو طرفہ معاہدے کی پابندی نہ کرے تو دوسرے فریق کو اس کی پابندی پرمجبور نہیں کیا جاسکتا۔