دبئی: سعودی عرب میں تین ماہ قبل شروع کی گئی کرپشن کے خلاف مہم میں گرفتار کیے گئے 95 افراد کے خلاف ٹرائل کے آغاز کا خدشہ ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق سعودی ذرائع ابلاغ نے اٹارنی جنرل سعود الموجد کے بیان کے حوالے سے بتایا کہ سعودی انفوگرافک کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر کہا گیا کہ حراست میں لیے گئے وہ افراد جو اپنے مقدمے کے خاتمے کے لیے مالی معاہدے کے لیے راضی نہیں ہوں گے انہیں جلد پبلک پروسیکیوشن میں ٹرائل کے لیے پیش کیا جائے گا۔
سعودی عرب کی ریاست سے تعلق رکھنے والی نیوز ویب سائٹ سبق نے اٹارنی جنرل کے بیان کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ حراست میں لیے گئے 90 افراد کو نقد، ریئل اسٹیٹ اور دیگر اثاثوں کے معاہدے پر رضامندی کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
حراست میں موجود ان95 افراد میں ارب پتی شہزادہ ولید بن طلال بھی شامل ہے، جنہیں نومبر 2017 میں اس وقت گرفتار کیا تھا، جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کرپشن کے الزام میں شہزادوں، تاجروں اور حکام کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ ولید بن طلال عوامی سطح کی مختلف کمپنیوں کے چیئرمین ہیں جبکہ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، سٹی گروپ اور فور سیزن ہوٹل کی چین میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جبکہ وہ رائڈنگ شیئرنگ سروس لفٹ اور کریم کے بھی سرمایہ کار ہیں۔
اس سے قبل اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ اگر مالی معاہدہ نہیں ہوتا تو قیدیوں کے خلاف مقدمہ اور مزید تحقیقات ہوں گی جبکہ انہیں 6 ماہ یا اس سے زیادہ سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
سعودی عرب میں نومبر 2017 میں حراست میں لیے گئے افراد میں 11 شہزادے بھی شامل ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو ریاض کے عالیشان ہوٹل رٹز کارلٹن میں رکھا گیا جس کے بعد سے اس ہوٹل کو عوام کے لیے بند کردیا گیا، تاہم ہوٹل ویب سائٹ کے مطابق وہ 14 فروری سے دوبارہ بکنگ کا آغاز کر رہا ہے۔