قابض اسرائیلی حکومت کی جانب سے بیت المقدس کے مسلمان باشندوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ وہاں کی مسیحی برادری کے خلاف بھی انتقامی اقدامات کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت نے بیت المقدس میں موجود گرجا گھروں پر ٹیکس عاید کردیا ہے۔
بیت المقدس میں اسرائیلی بلدیہ کے ترجمان نے جمعہ کو ایک بیان میں بتایا کہ ماضی میں القدس کے گرجا گھروں، ویٹیکن اور اقوام متحدہ کے زیرانتظام مذہبی مقامات ٹیکسوں سے مستثنیٰ تھے، مگر ان پر ٹیس لاگو کیے جا رہے ہیں۔
القدس بلدیہ کے اسرائیلی ڈائریکٹر جنرل امنون میرھاف نے اسرائیلی حکام کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ عالمی معاہدے عبادت گاہوں پر ٹیکسوں کو معاف نہیں کراسکتے۔ ہم کئی سال سے گرجا گھروں کو ٹیکسوں سے مستثیٰ رکھے ہوئے تھے۔ اب ان گرجا گھروں کی املاک پر بھاری ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔
میرھاف کا کہنا تھا کہ گرجا گھروں کی 889 املاک کے قرض 19 کروڑ ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔
میرہاف نے یہ مکتوب وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو، وزیر داخلہ اریہ درعی، وزیرخزانہ موشے کحلون اور حکومت کے مشیر قانون افیحائی مندلبوم کو بھی ارسال کیا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ القدس میں موجود عیسائی عبادت گاہوں پر ٹیکسوں کی دی گئی چھوٹ سے اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسیاں مستفید ہو رہی ہیں۔ ان املاک کا سالانہ ٹیکس 27 ملین ڈالر بنتا ہے۔
مکتوب میں ایک قانونی رائے دی گئی ہے اور کہا ہے کہ ایسے مقامات جنہیں صرف عبادت کے لیے مخصوص کیا گیا ہو، جن میں نماز یا دعا کا اہتمام ہو، یا مذہبی تعلیم دی جائے یا دینی ضروریات کے لیےاستعمال کیا جائے انہیں ٹیکس سے مستثیٰ قرار دیا جائے۔
خیال رہے کہ سنہ1993ء میں ویٹیکن کی جانب سے اسرائیل کوتسلیم کرنے کے بعد القدس میں موجود مذہبی مراکز کے حوالے سے تل ابیب سے مذاکرات کرتا رہا ہے۔
بیت المقدس کے آرتھوڈکس چرچ پر گرجا گھروں کی املاک کی غیرقانونی خریدو فروخت کا الزام بھی عاید کیا جاتا رہا ہے۔