نئی دہلی : بابری مسجد رام جنم بھو می حق ملکیت کے معاملہ میں جہاں ایک طرف سپرین کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے وہیں دوسری طر ف مولانا سلمان ندوی کے بیان بازی کے بعد خود ملت اسلامیہ میں ہنگا می صورت پیدا ہوگئی ہے۔اب اس معاملہ میں جسٹس سہیل اعجاز نے اپنے رد عمل ظاہر کر تے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے تبصرہ پر فریقین کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
کہا کہ سپریم کورٹ نے واضح طور پرکہہ دیا کہ بابری مسجد رام مندر بھو می کا معاملہ آستھا کا نہیں ہے بلکہ حق ملکیت کا ہے۔اور اس پورے معاملہ کو اسی طرح دیکھنا چاہئے۔انھوں نے کہا کہ جب معاملہ حق ملکیت کا ہے تو ہمیں بہت ہی سنجیدگی سے اس مسئلہ کو سمجھنا چاہئے کہ آخر حق ملکیت کے اصول کیا ہیں۔
جسٹس صدیقی نے کہا کہ حق ملکیت کے تین پہلو ہو تے ہیں ۔ پہلا حق ملکیت ہوتا ہے وراثت کا مالکانہ حق، دوسرا حق ملکیت ہوتا ہے خریداری کا مالکانہ حق اور تیسرا حق ملکیت ہوتا ہے قبضہ مخالفانہ۔انھوں نے کہا کہ وراثت اور خریداری کے مالکانہ حق تو کوگ سمجھ لیتے ہیں لیکن قبضہ مخالفانہ کو کم لوگ جانتے ہیں ۔جسٹس صدیقی نے کہا کہ قبضہ مخالفانہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی نے کسی زمین پر قبضہ کر لیا اور بارہ سال تک اس قبضہ کی کسی نے مخالفت نہیں کی تو قابض کورٹ میں قبضہ مخالفانہ کے تحت کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ جو دشخص قبضہ کرتا ہے وہ اصل مالک کو اس کی اطلاع قانونابارہ سال تک دیتا ہے اور اگرس درمیان اصل مالک نے دعوی پیش نہیں کیا تو قانو نی طور پرملکیت قابض کی ہو جا تی ہے
۔یا وہ اس کادعوی عدالت میں پیش کر سکتا ہے ۔جسٹس صدیقی نے کہا کہ بابری مسجد کے معاملہ میں ہمیں اس پہلو پر توجہ دینی ہوگی۔اور واضح طور پر کہنا ہوگا کہ بابری مسجد وقف ہے اور وقف صرف اللہ کو مالکانہ حق ہے یعنی وہ االلہ کے نام وقف ہو تی ہے۔جہاں تک سنی سنٹرل وقف بورڈ اتر پردیش کا تعلق ہے تو وہ تو محض کسٹو ڈین ہے ۔ وہ مالک نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر ہندو فریقین کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جائے جس کے امکان ہیں کہ بابری مسجد میں ۱۹۴۸ ء میں تالا لگنے کے بعد وہاں مستقل رام للا بیٹھے ہیں اور کسی نے قبضہ کے خلاف کئی سال تک دعوی پیش نہیں کیا تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قبضہ کر نے کی اطلا ع کس کو دی گئی؟
کیا کسی نے اللہ کو اس کی اطلاع دی؟اگر دی تو کہاں دی؟جسٹس صدیقی نے کہا کہ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا یہ وقت ابھی نہیں یہ کہ ہم مسجد کو دینے یا نہ دینے کی بحث میں پڑیں۔انھوں نے کہا کہ جب معاملہ حق ملکیت کا ہے تو ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کر نا چاہئے۔انھوں نے کہا کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ زمین کسی کو دیدی جائے؟ یا مسجد کو منتقل کیا جائے تو سوال یہ ہے کہ ا سکی اجازت کس نے دی؟اگر سنی وقف بورڈ شری شری روی شنکر سے ملتا ہے اور وہ بھی مسجد کو منتقلی کی بات کر تا ہے تو یہ حق ان کو دیا کس نے؟وہ تو صرف کسٹو ڈین ہیں اور ان کی ذمہ داری صرف انتظام کی ہے ۔انھوں نے کہا کہ وقف بورڈ کے پاس مالکانہ حق نہیں ہے کیو نکہ اس مالک تواللہ ہے ۔مجھے نہیں پتہ کے سپریم کورٹ میں فیصلہ کیا ہوگالیکن ہمیں اس جانب توجہ دینی چاہئے۔