حیدرآباد۔؛ اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اسلامی اور مسلم ممالک پر زور دیا کہ وہ مغرب کی سازش کا شکار ہوکر آپس میں اختلافات اور جنگ و جدال میں ملوث ہونے کے بجائے کلمۂ توحید کی بنیاد پر متحد ہوجائیں۔ مغربی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کررہی ہیں جبکہ اسلام محبت، اعتدال اور رحمت کا مذہب ہے۔ مغربی طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں قرآن اور سیرت طیبہ کو اپنا رہنما بنانا ہوگا۔
ڈاکٹر حسن روحانی آج شام ہوٹل تاج کرشنا میں علماء مشائخین، عمائدین اور دانشوروں کے نمائندہ اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ صدر ایران نے کہا کہ ان کا ملک کسی بھی ملک کے ساتھ اختلاف اور جنگ نہیں چاہتا بلکہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے مصالحت اور مذاکرات کے ساتھ مسائل کی یکسوئی کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان، شام اور یمن کے مسائل کے حل کے لیے ایران سنجیدہ ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تمام مسلم ممالک اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ممالک میں موجودہ صورتحال کا حل تلاش کریں۔ اتحاد کے ذریعہ ہی ہم مغربی طاقتوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
انہوں نے قرآن مجید کی مختلف آیات کی تلاوت کی اور کہا کہ اللہ تعالی نے انسانیت کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ کو بطور رہنما اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ انہوں نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ ہم اپنی نئی نسل کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے غلط استعمال اور برائیوں میں مبتلا ہونے سے روکنے کی کوشش کریں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مثبت معلومات کے حصول اور ترقی کا ذریعہ بنانے کا حوصلہ دے۔
انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان نسل میں جب تک اسلامی تعلیمات کو عام نہیں کیا جاتا اس وقت تک ہم مغربی طاقتوں کی مخالف اسلام اور مسلم سازشوں کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام دنیا بھر کے لیے نجات کا واحد راستہ ہے اور وہ ایک مکمل سیاسی، سماجی اور انصاف پر مبنی نظام کی تشکیل کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام کسی ایک دور کے لیے نہیں بلکہ یہ تاقیامت ساری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے۔ ترقی کے سلسلہ میں مسلم ممالک پر مغرب کے دبائو کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر حسن روحانی نے امریکہ اور دیگر ممالک کا نام لیے بغیر کہا کہ ایران محبت اور دوستی کا خواہاں ہے اور وہ اپنے حقوق کے تحفظ کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کسی بھی مسئلہ پر وہ مصالحت اور مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ مغرب کو یہ جان لینا چاہئے کہ ایران کو طاقت یا کسی اور طریقہ سے ڈرایا یا جھکایا نہیں جاسکتا۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنی تقریر کے آغاز میں حیدرآباد اور ایران کے درمیان تاریخی روابط اور ثقافتی تعلقات کا بطور خاص ذکر کیا اور کہا کہ یہ تعلقات سیاسی اور اقتصادی تعلقات سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے ہندوستان اور ایران کے باہمی مضبوط روابط اور مختلف شعبوں میں تعاون کا حوالہ دیا اور کہا کہ گزشتہ 40 برسوں سے دونوں ممالک کے عوام کے دوستانہ تعلقات اٹوٹ ہیں۔ میں تاریخی شہر حیدرآباد میں ایرانی عوام کے دوستی، محبت اور برادری کے پیام کے ساتھ اپنے دورۂ ہندوستان کا آغاز کررہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی انجام دہی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ ہمیں اسلام، قرآن اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پیام کو دنیا میں عام کرنا ہوگا۔ صدر ایران حسن روحانی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ کوئی بھی مظلوم مدد کے لیے آواز دے تو اسلامی تقاضہ ہے کہ مدد کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ مدد کا طلب گار چاہے کسی بھی مذہب سے ہو، اسلام کا تقاضہ ہے کہ ہم اس کے لیے کھڑے ہوں اور مدد سے انکار غیر اسلامی عمل ہے۔ دینی اور انسانی اعتبار سے ہم ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ طاقتور ممالک کی جانب سے کمزور اور ترقی پذیر ممالک کو کچلنے اور ان پر جنگ مسلط کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے حسن روحانی نے کہا کہ جنگ کا وجود خود ظلم پر مبنی ہوتا ہے۔ کسی ملک پر جنگ مسلط کردی جائے تو عوام اپنی دفاع کے لیے مجبور ہوتے ہیں اور قرآن مجید نے دفاع کی اجازت دی ہے۔ انہوں نے علم کے حصول اور خاص طور پر عصری ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ایک زمانہ وہ تھا جب ٹیکنالوجی میںمسلم ممالک کا کوئی ثانی نہیں تھا لیکن مغرب نے ہم سے ٹیکنالوجی حاصل کرلی اور اسی ٹیکنالوجی کو بھاری قیمت پر ہمیں واپس فروخت کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کا رویہ ترقی پذیر اسلامی ممالک کے ساتھ انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ انہوں نے ایشیائی اور افریقی ممالک کو علوم جدید میں مہارت حاصل کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہم صلاحیتوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عصری ٹیکنالوجی کے حصول پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک نے مسلمانوں کو اختلافات کا شکار کردیا ہے۔ عراق میں اہل سنت، شیعہ اور کرد متحد تھے۔
اسی طرح شام میں بھی تمام مسلکوں میں اتحاد برقرار تھا لیکن مغربی طاقتوں نے ہمیں آپس میں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا ہے۔ ہندوستان کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ یہ ملک مختلف مذاہب کا گہوارہ اور مختلف ادیان و عقائد کا گلدستہ ہے۔ ہزاروں برسوں سے تمام مذاہب باہم شیر و شکر اور محبت اور بھائی چارہ سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ شیعہ، سنی، ہندو، صوفی، سکھ یا کوئی اور ہوں ہندوستان میں وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ کلمہ کی بنیاد پر مسلمانوں میں اتحاد کی وکالت کرتے ہوئے ایران کے صدر نے کہا کہ جو شخص بھی کلمہ گو ہے اور کعبۃ اللہ کو ا پنا قبلہ مانتا ہے اسے کافر نہیں کہا جاسکتا۔ اللہ، رسول، قرآن اور اہل بیت کو ماننے والے مسلمان ہیں۔ دنیا بھر میں کلمہ گو مسلمانوں میں اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایران تمام اسلامی ممالک میں اتحاد کا خواہاں ہے۔ ہم دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ دوری نہیں چاہتے۔ مسائل کا حل بندوق یا جنگ نہیں بلکہ مذاکرات ہیں۔ باہمی مسائل کو فوج سے نہیں بلکہ ان کا سیاسی حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ نوجوانوں کو اسلام سے واقف کرانے اور والدین کے احترام کا درس دینے کی تلقین کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ آج کی نوجوان نسل موبائل فون اور اسمارٹ فون میں کھوچکی ہے۔ 24 گھنٹوں میں وہ بمشکل ایک گھنٹہ بھی اپنے والدین کیلئے نکال نہیں سکتے۔
اسمارٹ فون نے دنیا کو سمیٹ دیا ہے لیکن اس ٹیکنالوجی کا استعمال مثبت انداز میں ترقی کے لیے ہو۔ ایرانی صدر کے ہمراہ وزیر خارجہ جواد ظریف اور دیگر وزراء اور اعلی عہدیدار موجود تھے۔ ہندوستان میں آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندے آقا مہدی مہدوی پور، شیخ الجامعہ مولانا مفتی خلیل احمد اور ڈاکٹر نثار حسین حیدر آغا نے بھی مخاطب کیا۔ اس موقع پر مولانا قبول پاشاہ قادری، قائد اپوزیشن محمد علی شبیر، نیوز ایڈیٹر سیاست جناب عامر علی خان، صدرنشین تلنگانہ وقف بورڈ محمد سلیم، رکن قانون ساز کونسل امین الحسن جعفری کے علاوہ علماء و مشائخین، ذاکرین کی کثیر تعداد موجود تھی۔