سمیع اللہ ملک:۰۹۹۱ءمیں افغانستان میں بری طرح شکست کھانے کے بعدجب سوویت یونین کاشیرازہ بکھرگیاجس سے امریکادنیاکی واحدسپرطاقت بن گیالیکن جن ملکوں(پاکستان و افغانستان)کے توسط سے اس کویہ مرتبہ ملا،اس نے اپنی سرشت کے مطابق سب سے پہلے انہی کواپناہدف بناتے ہوئے نقصان پہنچانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی اوراس نے یہ ثابت کردیاکہ امریکاکی دوستی اس کی دشمنی سے بھی بدترہے۔جونہی واحدسپرطاقت کانشہ دوآتشہ ہواتواس نے فوری طورپردنیاکی سیاست اورجغرافئے میں تبدیلیوں کیلئے نیوورلڈ آرڈرجیسامنحوس پروگرام کوبالجبرنافذکرنے کیلئے جارحیت کاآغازکردیاتاکہ کوئی بھی قوت اس کے مدمقابل نہ آسکے۔سب سے پہلے ایک منظم پروگرام کے مطابق اکتوبر میںنائن الیون کوجوازبنا کر افغانستان پروحشیانہ جارحیت کاآغازکیااوران تمام عناصرکوختم کرنے کی کوشش کی گئی جن کوامریکااپنے مدمقابل سمجھ رہاتھا۔
اس کے بعدامریکانے اپنی خفیہ ایجنسیوں کی بے بنیادمعلومات کوبہانہ بناکرکہ عراق کے پاس دنیاکوتباہ کرنے کیلئے مہلک ہتھیارموجودہیں، مشرقِ وسطی کے ایک خوبصورت اورترقی یافتہ تہذیب یافتہ اورتیل سے مالامال ملک عراق پرحملہ کردیامگرآج تک امریکانہ صرف اس الزام کوثابت نہیں کرسکابلکہ اس کے سیکرٹری خارجہ کولن پاو¿ل کواقوام متحدہ میں اپنے اس جھوٹ کے پلندے اور سابقہ بیان پرشرمندگی اورمعافی کااعتراف بھی کرناپڑالیکن عراق اورافغانستان کوکھنڈرات میں تبدیل اورلاکھوں افرادکوہلاک کرنے کے باوجودابھی تک وہاں تشددکاسلسلہ بندنہیں ہوسکااورآئے دن تشددکے مختلف واقعات میںسینکڑوں افراد کا ہلاک ہونا ایک معمول بن گیاہے اور دونوں ممالک کی معیشت آج مکمل طور پرانتہائی خستہ حال ہوچکی ہے جبکہ عراق کے تیل سے مالامال ہونے کے باوجوداس کے اپنے شہری زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔
دوسری جانب امریکی صدراوبامامیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ کہ آج امریکاپہلے سے کہیں زیادہ محفوظ ہے یعنی امریکانے اپنی سلامتی کویقینی بنانے کیلئے دنیاکی سلامتی کو غیریقینی صورتحال سے دوچارکردیاہے جس کااندازہ گزشتہ ہفتے معروف امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ کی شائع کردہ ایک رپورٹ سے لگایاجاسکتاہے جس میں اس بات کاانکشاف کیاگیاہے کہ امریکانے پاکستان میں ڈرون حملوں،یمن ، افغانستان اورافریقہ میں جاری سی آئی اے کے خفیہ آپریشنزاورایرانی ایٹمی پروگرام کوناکارہ بنانے کیلئے ۔ارب ڈالر خرچ کئے ہیں جبکہ پاکستان میں مبینہ بائیولوجیکل وکیمیکل لیبارٹریزاورایٹمی ہتھیاروں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کیلئے بھی سی آئی اے بھاری رقوم خرچ کررہاہے اوردیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کوامریکی خفیہ نگرانی کی فہرست میں ترجیحی سطح پررکھاگیاہے۔رپورٹ کے مطابق امریکاکوپاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے متعلق ہے اس لئے پاکستان سے متعلق خفیہ نگرانی کے نیٹ ورک کوپہلے سے کہیںزیادہ وسیع کیاگیاہے۔
۳ستمبرکودفترخارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ پرردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کے عدم ِ پھیلاو کے مقصد پرسختی سے عمل پیراہے اوراس سلسلے میںپاکستان کی پالیسی ضبط اورذمہ داری کی ہے۔ مذکورہ رپورٹ امریکی اخبارنے امریکی ایجنسی سی آئی اے اوراین ایس اے کے سابق اہلکارEdward Snowden ایڈورڈ اسنوڈن سے حاصل کردہ سی آئی اے کے متعلق سیاہ بجٹ پرمشتمل صفحات کی دستاویزات کی بنیادپرشائع کی جس میں امریکی سلامتی سے متعلق پروگرام کی تفصیلات موجود ہیں۔رپورٹ کے مطابق سولہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کاسالانہ بجٹ ۔بلین ڈالرہے جس میں ۔بلین ڈالرکی رقم سی آئی اے پرخرچ ہوتی ہے جبکہ سی آئی اے کانصف بجٹ ہیومن انٹیلی جنس کے حصول پرخرچ کیاجاتاہے۔ان سولہ انٹیلی جنس ایجنسیوںمیںایک لاکھ ہزارملازمین کام کررہے ہیں۔
رپورٹ میں اس بات کابھی انکشاف کیاگیاہے کہ سی آئی اے اوراین ایس اے دشمن ممالک کے کمپیوٹرنیٹ ورک کوناکارہ بنانے کیلئے ہیک کرتی ہیں،ان میں چین،روس،ایران ، اسرائیل اورکیوباکے ممالک شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق کے بعدسی آئی اے کاسالانہ بجٹ۔بلین ڈالرکے قریب ہے۔واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکی کمانڈوز نے خلا میں موجودہ سیٹلائٹ کی مددسے پاکستان میںموجوداسامہ بن لادن کومارنے کادعوی کیا۔واضح رہے واشنگٹن پوسٹ کی شائع کردہ یہ رپورٹ ایڈورڈ سڈون کی فراہم کردہ معلومات کی بنیادپرتیارکی گئی ہے۔ ایڈورڈسڈون امریکی خفیہ اداروں میں کمپیوٹراسپیشلسٹ تھاجوسی آئی اے اوراین ایس اے کیلئے کام کرتاتھا۔ایڈورڈ سڈون نے مئی میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے متعلق بہت سے رازافشا کئے تھے اوردنیاکے لوگوں کی خفیہ نگرانی کو غیراخلاقی قراردیاتھاجس کے بعدوہ امریکی ایجنسیوں کے خوف سے امریکاکوچھوڑکر ہانگ کانگ سے کئی دوسرے ملکوں میں چھپتاپھررہاہے اوراب اس نے کئی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے جبکہ روس نے امریکی مخالفت مول لیتے ہوئے ایڈورڈ سڈون کی سیاسی پناہ کی درخواست قبول کرلی ہے۔
ایڈورڈسڈون نے اخلاقی جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے دنیاکوکوامریکی پالیسیوں سے آگاہ کیاکہ امریکااپنی سلامتی کوممکن بنانے کیلئے ہرقسم کی قانونی اوراخلاقی خلاف ورزیاںکررہا ہے۔ ایڈورڈسڈون کے امریکاخفیہ ایجنسیوں سے متعلق رازافشا کرنے کے بعدجرمنی میں امریکی خفیہ ایجنسیوںکی پالیسیوں کوبہت تنقیدکانشانہ بنایا گیا اورجرمنی نے امریکاسے سردجنگ میں کئے جانے والاجاسوسی کامعاہدہ ختم کردیاجس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ خودمغربی ممالک میں امریکی انٹیلی جنس کاروائیوں کوتنقیداورمخالفت کاشدیدسامناہے۔ابھی حال ہی میں جرمن میگزین نے اس بات کابھی انکشاف کیاہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹراورممالک کے سفارت خانوں کی خفیہ جاسوسی کی ہے۔میگزین کے مطابق گزشتہ برس امریکی ایجنسی این ایس اے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ویڈیو کانفرنسنگ سسٹم تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اگرامریکاپر اقوام متحدہ کی جاسوسی کے الزامات ثابت ہوگئے تویہ امریکااوراقوام متحدہ کے درمیان اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی جس کے مطابق امریکا اقوام متحدہ کی جاسوسی کرنے کاکوئی حق نہیں رکھتااورجاسوسی ثابت ہونے پرامریکی خفیہ کاروائیاں غیرقانونی شمار کی جائیں گی۔میگزین کے مطابق این ایس اے نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کے ساتھ ساتھ امریکامیں قائم یورپی یونین کے سفارتخانے کی بھی جاسوسی کی ہے۔رپورٹ کے مطابق امریکاپوری دنیاکے مواصلاتی نظام کی جاسوسی کرتاہے جس میں لوگوںکے آن لائن ڈیٹااورٹیلی فون کالزکی نگرانی کی جاتی ہے۔ابھی حال ہی میں امریکامیںعام کی جانے والی ایک عدالتی دستاویزسے یہ بھی معلوم ہواہے کہ امریکی قومی سلامتی کی ایجنسی این ایس اے نے غیرقانونی طورپرسالانہ امریکیوں کی ہزارکے قریب ذاتی ای میلزجمع کی تھیں جو صارفین کی پرائیویسی کے حقوق کی سراسرخلاف ورزی ہے۔
۰۱/اگست۳۱۰۲ءمیں جاری ہونے والی جرمن جریدے کی رپورٹ کے مطابق امریکی قومی سلامتی سے متعلق خفیہ ایجنسی این ایس اے نے بیرونِ ممالک اپنے جاسوسی پروگرام میں یورپی ممالک کوسرِ فہرست رکھاہواہے جبکہ چین،روس ،ایران پاکستان اورشمالی کوریاکی نگرانی سب سے اہم ہدف قراردیاہے۔امریکی اہداف میںفرانس،جرمنی اورجاپان کی نگرانی کودرمیانے درجے میں رکھاگیاتھا۔ستمبر کوعالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے نے برازیل اورمیکسیکو کے صدورکی بھی خفیہ نگرانی کی تھی اور ان کے آن لائن ڈیٹاتک رسائی حاصل کی تھی۔مذکورہ معلومات عام ہونے کے بعدبرازیل کی حکومت کی جانب سے امریکاکے اس عمل کی شدیدمذمت کی گئی۔اس تمام صورتحال کوپیش نظررکھتے ہوئے اس بات کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ امریکی حکومت وانتظامیہ اپنے مفادات کوتحفظ دینے کیلئے نہ تواپنے شہریوں کے حقوق کاخیال رکھتی ہے اور نہ ہی دنیاکے کسی قوانین کی پرواہ کی جاتی ہے۔امریکااپنی من گھڑت اطلاعات کی بنیادپرافغانستان اورعراق کووحشیانہ ظلم وستم کی جنگی کاروائیوںکانشانہ بناچکاہے اوراب دنیاکی دوسری
اقوام کی ذاتی زندگی کوبھی اجیرن بنارہاہے جس کے نتیجے میںامریکی پالیسیاںدنیاکی سلامتی پرایک سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔(ےو اےن اےن)