سید منصور آغا، نئی دہلی:ہندستان کی اسی فیصد آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔ اس کے مطلب یہ ہے کہ اسی فیصد ہندستانیوں کی مائیںدیہاتی ہیں۔ دیہاتی ہو یا شہری،کسی عورت کو حقیر نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ میرا بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ابتدائی ایام ایک چھوٹے سے گاﺅں میں گزرے۔ میری والدہ بیشک دہلی کی تھیں ،مگر گردو پیش میںنہ جانے کتنی خواتین تھیں جو نسل در نسل دیہات میں رہتی چلی آئی تھیں، مگر ہماری نظروں میں ماں اور دادی کا درجہ رکھتی تھیں ۔ گاﺅں کی ہر عورت کو ہم نے ممتا کی مورت پایا۔ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ دیہاتی خواتین میں ایثار و قربانی ، وفاشعاری، تواضع و خدمت گزاری، سچائی، محنت و مشقت کے جوہر رچے بسے ہوتے ہیں۔ رہی ان کی سادہ لوحی تو شہروں کی بھی بہت سی خواتین سادہ لوح ہوتی ہیں۔یہ وہ محترم خواتین ہیں جوچھل کپٹ نہیں جانتیں۔ رامائن نے جس شبری کی امر کہانی بیان کی ہے وہ بھی دیہاتی تھی اور اس کو امراس کی سادہ لوحی نے ہی بنایا۔ شری رام نے بھی اس سادہ لوح دیہاتی خاتون کا احترام کیا۔ مگر’رام
بھکتی اور بھارتیہ سنسکرتی‘ کی علمبرداری کے دعویدارشری نریندر مودی سمجھتے ہیں ’دیہاتی عورت‘ حقیر ہوتی ہے اورکسی کو ’دیہاتی عورت‘ کہہ دینا اس کی توہین ہے۔
دہلی کی چناﺅریلی میں اپنی لچھے دار تقریر میں مودی نے پہلے تو یہ بے پر کی اڑائی کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے ہمارے وزیراعظم کو ’دیہاتی عورت‘ کہا اورپھر عوام کو فریب میں مبتلا کرنے کے لئے یہ کہا کہ وزیراعظم کو ’دیہاتی عورت‘ کہہ کر نواز شریف نے پورے ہندستان کی توہین کرڈالی۔کاش نریندر مودی عورت ذات کی عظمت کو پہچانتے۔ جس نے شادی کے پہلے ہی دن اپنی بیوی کے ارمانوں کو کچل کر اس سے دوری اختیارکرلی ہے،جو اپنی بہنوں سے دور دور رہتا ہو، اپنی ماںکے پاس بھی کبھی کبھار ہی ملتا ہو، وہ کسی بھی پہلو سے عورت ذات کو کیا سمجھے، کیا پہچانے! ان کوتو اب یہ بھی یاد نہیں رہا کہ جس محترم خاتون نے ان کو جنم دیا، دودھ پلایا ، پالا پوسا وہ بھی دیہات سے آئی تھیں۔ان کے علم میں شاید یہ بات بھی نہیں کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے جس خاتون کے آغوش میں پرورش پائی، وہ بھی ایک گاﺅں’ گہہ‘ کی باشندہ تھیں۔ مودی جی! بھارتیہ سنسکرتی میں ماں جیسا ہونابیٹے کی توہین نہیں، تحسین ہے۔ آپ کا یہ انداز فکر ظاہر کرتا ہے کہ آپ ہندستان کی اسی فیصد آبادی کو، جو دیہات میں بستی ہے، حقیر و ذلیل گردانتے ہیں اور ان کے ہی ووٹ سے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ اسی فیصدعوام ، کیا
فیصلہ کرتے ہیں ،جو کسی نہ کسی دیہاتی عورت کی گود میں پلے بڑھے ہیں۔
نہرو -گاندھی خاندان
نریندر مودی نے اپنی تقریر میں نہرو- گاندھی خاندان پر بھی کیچڑ اچھالی ہے، حالانکہ اسی خاندان کے ایک فرد کوان کی پارٹی بھی اسٹار لیڈر کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ خاندان کا جو فرد تمہارے ساتھ آگیا وہ ہیرا ہے، باقی خاندان گردن زدنی ہے؟ ورن گاندھی کو آگے بڑھانے کا مقصد اس کے سوا کیا ہے کہ نہرو، گاندھی خاندان سے عوام کو جو وابستگی رہی ہے، اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جائے؟عوام کی اس پریوار سے یہ وابستگی بلا وجہ نہیں ہے۔ اِس پریوار کی تاریخ اُس پریوار کی سوچ سے مختلف ہے ،آپ جس کے سیوم سیوک ہیں۔ ملک کے لئے نہرو، گاندھی پریوار کی قربانیاں ہیں خدمات ڈھکی چھپی نہیں۔ اس خاندان نے فرقہ ورانہ جذبات کو مشتعل کرکے نہ تو عوام کو خانوں میں تقسیم کیا ، نہ کمزور طبقہ کے خون کی ہولی کھیل کر اقتدار حاصل کیا، نہ جھوٹے سچے خواب دکھاکر عوام کو ورغلایا ۔جدوجہد آزادی میں موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو اور فیروز گاندھی نے قائدانہ رول ادا کیا ۔ آزادی کے بعد جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی نے ملک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر ڈالا ۔ جب ہم آزاد ہوئے ، ہمارا شمار مفلس اقوام میں ہوتا تھا، اناج تک منگانا پڑتا تھا۔لیکن پچھلے ساٹھ سالوں میں ہم ایک بڑی اقتصادی طاقت بن گئے ہیں۔یہی وجہ ہے کی جب ہماراوزیر اعظم امریکا جاتا ہے تو صدر امریکا پورٹیکو تک رخصت کرنے آتا ہے۔ اس کا سہرا کس کے سر ہے؟ اسی خاندان اور پارٹی کے سر جس سے ’چھٹکارادلاو¿‘ آپ کا انتخابی نعرہ ہے۔ قوم اس قربانی کو بھی نہیں بھول سکتی جو اندرا گاندھی نے اور راجیو گاندھی نے دی۔آپ نے اور آپ کے پریوار نے دھرم کے نام پر ، مندر کے نام پر فسادات کرانے اور آتنک پھیلانے کے سوا ملک کو کیا دیا؟ اس لئے جب کوئی سنگھی راہل گاندھی کو خاندان کے نام سے گالیاں دیتا ہے تو وہ اپنے حسد اور جلن کا اظہار کرتا ہے، سچائی کا نہیں۔ الزام تراشی کے سوا سنگھ کے پاس کوئی مثبت منصوبہ نہیں جسے پیش کرکے ووٹ مانگ سکیں۔
رہیں سونیا گاندھی ۔ بیشک وہ غیر ملک میں پیدا ہوئیں، مگر وہ اس ملک کی بہو ہیں اور ہماری سنسکرتی میں بہو غیر نہیں ہوا کرتی،سسرالی خاندان کی وفاشعاراور اس کی قدروں کی محافظ ہوتی ہے۔ سونیا گاندھی نے یہ کردکھایا ہے۔ ان میں عوام ہندستانیت جو تصویر دیکھتے ہیں، وہ بیشک بے مثال ہے۔ ان کے خلاف ’ودیشی مُول‘ کا شور مچاکر، جب جب مہم چلائی گئی ،مہم چلانے والوں نے منھ کی کھائی۔ عوام نے ان کو مسترد کردیا۔ مگر عوام کے فیصلے فسطائی ذہنیتوں کے گلے نہیں اترتے۔ وہ ہٹلر کے نقش قدم پر چل کر کبھی اپنی انتخابی مہم کو ’بلٹز کریگ‘(پولینڈ پر نازی جرمنی کے اچانک حملے )کا کوڈ نام دیتے ہیں اور کبھی اس کے وزیر گوبلز کے نقش قدم پر چل کر بار بار ایک ہی جھوٹ کو بارباردوہراتے ہیں ،تاکہ عوام اس کو سچ سمجھ لیں۔ مگر عوا م سچائی جانتے ہیں۔
سنگھ-شریف ملاقات
ایران کے صدر حسن روحانی جب امریکا سے واپس لوٹ رہے تھے، صدر بارک اوباما نے ان سے فون پر بات کی۔ ظاہر ہے صرف سلام دعا ہی ہوئی ہوگی۔مگراس سے ایک مثبت اشارہ ملتا ہے، جس پر دنیا نے اطمینان کا اظہار کیاہے۔البتہ اسرائیل کو پریشانی لاحق ہے۔ادھرنیویارک میں جب ہند اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات کی تیاری چل رہی تھی، جموںمیں دہشت گرد حملے ہوئے۔رات کے وقت سرحد پار کرکے تین مسلح دہشت گردہماری سرحد میں گھس آئے۔کٹھوعہ میں ایک پولیس چوکی پر حملہ کیا، وہاں سے چل کر کوئی ۵۲ کلومیٹر دورسامبا میں ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا۔ ان مذموم وارداتوں میں ایک اعلا فوجی افسراور چار پولیس اہلکاروں سمیت ہمارے دس افرادناحق مارے گئے۔ہم اس سفاکی کی مذمت کرتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ حساس علاقے میں چوکسی میںایسی کیا چوک ہوئی کہ دہشت گرد بلا روک ٹوک ۸۳ کلومیٹر کا سفر کرکے یہ حملے کر گزرے۔بیشک تینوں حملہ آورفوجی کیمپ میں مارڈالے گئے، مگر کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ ان کو زندہ پکڑا جاتا تاکہ پوری سازش کا پردہ فاش ہوتا۔
اس حملے کا مقصد ہند پاک بات چیت میں خلل ڈالنا تھا۔اپوزیشن بھاجپا نے جو شور مچایا اور دباﺅ بنایا اس سے دہشت گردوں کی منشاءکی ہی تائید ہوئی ۔یہ اطمینان کی بات ہے کہ حکومت نہ دہشت گردوں کی چال میں آئی اورنہ بھاجپا کے دباﺅ میں نہیں آئی۔ دو فریقوں کے درمیان کشیدگی کی صورت میں واحد طریقہ یہی ہے کہ خیر سگالی کے جذبہ سے بات چیت کی جائے ۔ دھونس دھمکی اور جنگ جوئیت سے حل نہیں نکلا کرتا۔ چاہے وہ ایران، امریکا تنازعہ ہو یا ہند پاکستان مسئلہ ہو۔ امید ہے کہ اس ملاقات کا کچھ نہ کچھ اثر اگلے چند روز میں دکھائی دیگا۔ کم از کم ایل او سی پر امن قائم ہوجائیگا۔
لالو جی جیل گئے
ہریانہ کے سابق وزیراعلا اوم پرکاش چوٹالہ کے بعد اب بہار کے دو سابق وزراءاعلا لالو یادو اور جگن ناتھ مشرا بدعنوانی کے کیسوں میں جیل پہنچادئے گئے۔رشید مسعود کو بھی چار سال کی سزا ہوگئی۔رشید مسعودپر یہ کیس اس دور کا تھا جب وہ وی پی سنگھ کی کابینہ میں وزیر صحت تھے۔ وی پی سنگھ راجیو گاندھی کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی مہم کے نتیجہ میں برسراقتدار آئے تھے۔ ان کی کابینہ وزیر کو بدعنوانی کی پاداش میں سزا ملنا کچھ کہتا ہے۔ آج بھی جو لوگ سرکار پر بدعنوانی کے الزام کے تحت مہم چلا رہے ہیں، ان کی بدعنوانیاں تو پہلے ہی جگ ظاہر ہیں۔وہ صاف شفاف حکومت کیا دیں گے؟ ان سبھی کیسوںکی جانچ سی بی آئی نے کی تھی۔چوٹالہ یوپی اے کی حریف ہیں۔ لالو یو پی اے کے حلیف ہیں ۔ جگن ناتھ مشرا اور رشید مسعود کانگریسی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سی بی آئی پر جانبداری کا الزام غلط ہے۔ جانبدار ہوتی تو مشرا اور مسعود بری ہوہی جاتے۔
آخری بات:
دہلی کی ایک عدالت نے کشمیر کے دو نوجوانوں جاوید احمد تانترے اور عاشق علی بھٹ کو دہشت گردی کے ایک کیس میں چار سال بعد باعزت بری کرتے ہوئے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ ترجیحی بنیاد پر ترقی پانے کے لئے واضح طورپر ایک تھوپا ہوا کیس ہے۔ (“was a clear-cut plant case by the Special Cell to get out-of-turn promotion)۔ تانترے کو گورکھپور سے اور اعوان کو کشمیر سے پکڑا گیاتھا۔ دونوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ ان دونوںکی پہلی ملاقات پولیس حوالات میں ہوئی مگر الزام یہ لگایا گیا کہ دونوں دہلی میں یوم آزادی کے موقع پر دہشت گرد حملے کرنے آئے تھے۔ وکیل صفائی ایڈوکیٹ ایم ایس خان کے دلائل نے استغاثہ کے جھوٹ کی پول کھول دی۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ پوری کہانی بے ربط اور فرضی ہے۔ مگر ان بے قصوروں کو چار سال بعد جیل سے نجات ملی۔ اس فیصلے کے بعد وزیر داخلہ شندے نے ریاستی حکومتوں کو ہدایت بھیجی ہے کہ کوئی بے قصور نوجوان محض عصبیت کی بنا پر دہشت گردی کی کیس میں نہ پھنسایا جائے۔ اس اظہار ہمدردی کا شکریہ، مگریہ سلسلہ اس وقت تک بند نہیںہوگا، جب تک خاطی افسران کو جوابدہ نہیں بنایا جائیگا ۔سوال یہ بھی ہے حکومت ایسے نوجوانوں کی بازآبادکاری کی ذمہ داری قبول کیوں نہیں کرتی، جن کے کیسوں میں عدالتوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ ملزم بے قصور تھے، جھوٹ پھنسائے گئے۔