ایک طرف امریکہ کے نامزد وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے ایٹمی معاہدے میں اصلاح کی ضرورت پر زور دیا ہے تو دوسری جانب امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے ممکنہ طور پر نکل جانے کے بارے میں انتباہات میں اضافہ ہوا ہے۔
مائیک پمپئو نے اپنی اہلیت کے جائزے کے لیے ہونے والے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے اجلاس میں بیان دیتے ہوئے جہاں اس بات کا اعتراف کیا کہ ایران ایٹمی معاہدے کی پابندی کر رہا ہے وہیں یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایٹمی معاہدے میں اصلاح کے خواہاں ہیں۔ایٹمی معاہدے میں اصلاح کے لیے ٹرمپ کی مقررہ کردہ مہلت کے قریب آنے اور ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے امکانی فیصلے کے حوالے سے عالمی سطح پر انتباہات میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے میں اصلاحات کے لیے یورپی یونین کو بارہ مئی تک کی مہلت دی ہے بصورت دیگر ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے۔امریکہ کی سابق نائب وزیر خارجہ اور سینیئر ایٹمی مذاکرات کار ونڈی شرمین نے نیویارک ٹائمز میں چھپے اپنے مقالے میں، لکھا ہے کہ ایٹمی معاہدے سے نکلنے کی صورت میں امریکہ مضبوط نہیں ہوگا بلکہ یورپ امریکہ تعلقات پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرے میں پڑ جائیں گے۔ونڈی شرمین کا کہنا تھا کہ امریکا کے اتحادی اور اسی طرح جنوبی کوریا، جاپان اور ہندوستان جیسے اہم شریک ممالک بھی ایران کے خلاف سفارت کاری کے بغیر دوبارہ عائد کی جانے والے والی اقتصادی پابندیوں کی مخالفت کریں گے۔
یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے بھی اپنے اجلاس میں ایٹمی معاہدے کو براعظم یورپ کے لئے اہم قرار دیتے ہوئے ایٹمی معاہدے کو امریکی بیلیک میلنگ سے بچانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیرمین ڈیوڈ مک ایلسٹر نے اپنے خطاب میں یورپی یونین کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف پابندیاں دوبارہ عائد کیے جانے سے ، یورپی کمپنیاں براہ راست متاثر ہوں گی۔دوسری جانب آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیریل کم بال نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں بین الاقوامی تعاون کے میدان میں امریکی ساکھ کو زبردست دھچکا لگے گا۔سینیٹر بن کارڈن نے بھی خبر دار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے جامع ایٹمی معاہدے کو توڑا تو وہ عالمی برادری میں تنہا ہوکے رہ جائے گا۔