ممبئی:گوالیار سے تقریباً 45 کلو میٹر دور گرام بیہٹ میں شری مرکند پانڈے کے یہاں تان سین کی پیدائش ہوئی۔ تان سین کا اصلی نام رمتانو پانڈے تھا۔ان کے باپ گوالیار میں مندر کے پجاری تھے ۔
کہتے ہیں شری مرکند پانڈے کے یہاں کئی بچوں کی ولادت ہوئی لیکن قحط سازی کی وجہ سے وہ زندہ نہیں رہ پائے ۔ اس سے مایوس ہوکر مرکنڈ پانڈے صوفی سنت محمد غوث کی پناہ میں گئے اور ان سے اولاد کے لئے دعا کرائی۔ ان کی دعا رنگ لائی اور 1486 میں ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی جو آگے چل کر تان سین کے نام سے مشہور ہوا۔
تان سین کی بیوی کا نام حسینی تھا۔ وہ رانی مرگنینی کی داسی تھیں۔ تان سین کے چار بیٹے ، سرت سین، شرت سین ، ترنگ سین اور ولاس خان تھے جبکہ ان کے یہاں ایک بیٹی کی بھی پیدائش ہوئی جس کا نام سرسوتی تھا۔ تان سین کے تمام بچے بھی موسیقار تھے ۔ تان سین شمالی ہندستان کے کلاسیکل میوزک کے مایہ ناز سنگیت کار تھے ۔ انہوں نے موسیقی کی تعلیم مدھیہ پردیش میں حاصل کی۔ انہیں تان سین کا نام سوامی ہری داس نے دیا تھا جو ان کی آواز سن کر جھوم اٹھے ۔ سوامی ہری داس کے پا س تان سین نے بارہ برسوں کی عمر تک سنگیت کی تعلیم پائی۔ انہوں نے ساہتیہ اور سنگیت شاستر کی تعلیم بھی حاصل کی۔
جس وقت تان سین کی پیدائش ہوئی اس وقت گوالیار پر راجا مان سنگھ تومر کی حکومت تھی۔ ان کے دور حکومت میں گوالیار سنگیت کا مرکز کہا جاتا تھا۔ جہاں بیجو باورا، کرن اور محمود جیسے عظیم سنگیت کار اور گلوکار تھے ۔ تان سین کی سنگیت کی تعلیم بھی اسی ماحول میں ہوئی۔ راجہ ما ن سنگھ تومر کی موت کے بعد اور وکرم جیت سے گوالیار کا راج پاٹھ چھن جانے کے بعد یہاں سنگیت منڈلی بکھرنے لگی ۔ تب تان سین بھی ورندرا بن چلے گئے اور وہاں انہوں نے سوامی ہر ی داس جی سے سنگیت کی اعلی تعلیم حاصل کی۔ ابتدا سے ہی تان سین میں دوسروں کی نقل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔
بچپن میں تان سین مویشیوں، پرندوں کی طرح طرح کی بولیاں کی نقل اتارا کرتے تھے اور جنگلی جانوروں کی بولیاں سیکھ کر وہ لوگوں کو ڈرایا بھی کرتے تھے ۔ اسی درمیان سوامی ہری داس سے ان کی ملاقات ہوئی ۔ ان کی ملاقات کا بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے ۔سوامی ہری داس ان کی مختلف بولیاں کو بولنے کی صلاحیت کو دیکھ کر کافی متاثر ہوئے ۔ سوامی جی نے انہیں ان کے باپ سے سنگیت سکھانے کے لئے مانگ لیا۔ اس طرح تان سین کو سنگیت کا علم حاصل ہوا۔
6برس کی عمر سے ہی انہوں نے موسیقی میں اپنی مہارت دکھانا شروع کر دی تھی۔ وہ سوامی ہری داس کے بھگت تھے ۔ بے شمار راگوں کو موجودہ فنی شکل تان سین ہی نے دی۔ درباری کانپڑا، میاں کی ٹوڈی اور میاں کا سارنگ جیسے راگ بھی انھیں کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔
سنگیت سمراٹ تان سین کی نگری گوالیار کے لئے کہاوت مشہور ہے کہ جب یہاں بچے روتے ہیں تو سُر میں روتے ہیں اوراس شہر نے زمانہ قدیم سے آج تک ایک سے بڑھ کر ایک باصلاحیت سنگیت کار دنیا کو دیئے ہیں اورسُر اور سنگیت کے مایہ ناز فنکار میاں تان سین ان سب پر سبقت حاصل کئے ہوئے ہیں۔