مصری حکام نے طوطن خامن کے مقبرے میں خفیہ کمرے کی تلاش کا عمل اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد ترک کر دیا ہے کہ ایسے کسی کمرے کا کوئی وجود نہیں ہے۔
اس سے قبل حکام نے کہا تھا کہ انھیں ’90 فیصد یقین ہے‘ کہ اس مشہور نو عمر بادشاہ کے تین ہزار سال قدیم مقبرے کی دیوار کے عقب میں ایک خفیہ کمرہ موجود ہے۔
ایک خیال یہ بھی تھا یہ کمرہ ملکہ نیفرتیتی کا مقبرہ بھی ہو سکتا ہے جن کے بارے میں یہ خیال بھی کیا جاتا رہا ہے کہ وہ طوطن خامن کی والدہ تھیں۔
تاہم نئی تحقیق کے مطابق اس مقام پر کوئی کمرہ موجود ہی نہیں ہے۔
اس کمرے کی تلاش کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب انگریز ماہرِ آثارِ قدیمہ نکولس ریوز نے طوطن خامن کے مقبرے کے سکینز کا جائزہ لیتے ہوئے دروازوں کے مبہم نشانات کا اندازہ لگایا تھا۔
2015 میں شائع ہونے والے اپنے مقابلے ’نیفرتیتی کی تدفین‘ میں انھوں نے کہا تھا کہ یہ نسبتاً چھوٹا مقبرہ ملکہ نیفرتیتی کے لیے بنایا گیا تھا اور ممکن ہے کہ ان کی باقیات وہاں موجود ہوں۔
خیال رہے کہ نیفرتیتی کی باقیات آج تک نہیں مل سکیں اور ان کا تین ہزار سال قدیم مجسمہ انھیں قدیم مصر کی سب سے جانی پہچانی خاتون بناتا ہے۔
یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد طوطن خامن کی تخت نشینی تک بطور فرعون مصر پر حکومت بھی کی تھی۔
نکولس ریوز کے مقالے کی اشاعت کے بعد لیے جانے والے ریڈار سکینز بھی ان کے دعوے کو مضبوط کرتے دکھائی دیے جس کے بعد مصری حکام نے یہ دعویٰ کیا کہ انھیں 90 فیصد یقین ہے کہ مقبرے میں مزید ایک کمرہ موجود ہے۔
اگر یہ کمرہ دریافت ہوتا تو یقیناً یہ کئی دہائیوں میں مصری نوادرات اور آثارِ قدیمہ میں سب سے بڑی دریافت ہوتی۔
تاہم اٹلی کی ٹیورن یونیورسٹی کے ماہرین نے نئے ریڈار سکینز کی مدد سے اب یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہاں کچھ نہیں اور وہ اپنے نتائج کے بارے میں پراعتماد ہیں۔
اس تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فرانسیسکو پورسیلی کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ یہ مایوس کن ہے کہ طوطن خامن کے مقبرے کی دیواروں کے پیچھے کچھ نہیں ہے لیکن دوسری جانب یہ بہتر سائنس ہے۔‘
مصر کی آثارِ قدیمہ اور نوادر کی وزات کے سربراہ خالد العنانی نے کہا ہے کہ حکام اس تحقیق کے نتائج کو تسلیم کرتے ہیں۔