پیراگوائے کی حکومت اور اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ امریکا اور گوئٹے مالا کے بعد پیراگوائے بھی مئی کے اواخر میں اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کر دے گا۔
پیر کے روز اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان عمانوئل نحشون نے ایک بیان میں کہا کہ “رواں ماہ کے اواخر میں اسرائیل آنے والے پیراگوائے کے صدر اوراسیو کارٹس بیت المقدس میں سفارت خانے کے افتتاح کا ارادہ رکھتے ہیں”۔
پیراگوائے کی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سفارت خانے کی منتقلی کے سلسلے میں صدر کارٹس 21 یا 22 مئی کو اسرائیل کا دورہ کریں گے۔
ادھر فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ دیگر ممالک امریکا، پیراگوائے اور گوئٹے مالا کے نقش قدم پر نہیں چلیں گے۔ وینزویلا کے دورے پر آئے ہوئے محمود عباس نے مزید کہا کہ “امید ہے کہ اس براعظم (جنوبی امریکا) کے بعض ممالک اپنے سفارت خانے بیت المقدس منتقل نہیں کریں گے کیوں کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے”۔
یہ اعلان بیت المقدس میں 14 مئی کو امریکا کے سفارت خانے کے افتتاح سے ایک ہفتہ قبل سامنے آیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس چھ دسمبر کو بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس امریکی اقدام نے اسرائیلیوں کو خوش کر دیا جب کہ فلسطینیوں میں غم و غصّے کی لہر دوڑا دی۔
اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں بیت المقدس کا کنٹرول اردن سے چھین کر اسے اپنی غاصبانہ ریاست میں شامل کر لیا تھا۔ تاہم اس اقدام کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔
رواں برس مارچ میں گوئٹے مالا کے صدر جمی مورالس نے اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک 16 مئی کو اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دے گا۔
اپریل میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ 6 ممالک “سنجیدگی کے ساتھ” امریکی اقدام کی پیروی کرنے کے لیے کوشاں ہیں تاہم نیتن یاہو نے ان ممالک کے نام نہیں بتائے۔
دسمبر 2017ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 128 ممالک کی منظوری سے ایک قرارداد جاری کی جس میں امریکا سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے موقف سے دست بردار ہو جائے۔ نو ممالک نے قرارداد پر اعتراض کیا اور اکیس ممالک نے رائے شماری میں حصّہ نہیں لیا۔