واقعی تھی تو یہ محض چھاسٹھ کلومیٹر کی دوڑ لیکن ٹور ڈی خنجراب سائیکل ریلی کے پہلے دن نے واضع کر دیا کہ برف پوش چوٹیوں میں گھرے دلکش قراقرم ہائی وے پر سائیکل چلانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔
یہ سو سے زائد پیشہ ور سائیکل سواروں اور چالیس کے قریب ‘شوقیہ فنکاروں’ کے صبر، سیمٹنے اور طاقت کا امتحان تھا جو انہوں نے دو سے لے کر چھ گھنٹوں میں اپنے اپنے بس کے مطابق پورا کیا۔
پہلی ٹور ڈی خنجراب سائیکل ریلی کا شمالی علاقہ جات میں جمعے کو کئی ماہ کی عرق ریز تیاریوں کے بعد آغاز یقیناً ایک تاریخی دن تھا۔
اس خطے کے جفاکش لوگوں کو اسی ماحول دوست کھیل اور بین الاقوامی توجہ کی ضرورت تھی جو شاید آگے چل کر ایک مضبوط روایت بن سکتی ہے۔ گلگت بلتستان کے کمشنر عثمان احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس خطے کو سائیکلنگ کا مرکز بنانا چاہتے ہیں اور تین مراحل پر مبنی ٹور ڈی خنجراب اسی سکیم کا ایک حصہ ہے۔
ریلی کے پہلے دن گلگت سے راکاپوشی ویو پوائنٹ تک کی دوڑ میں افغانستان کی چار رکنی ٹیم اور سویٹزلینڈ کے شہری کی شرکت سے ظاہر ہوا کہ اس میں بین الاقوامی دلچسپی یقیناً ہے۔ یہ چھوٹا، محدود لیکن مثبت آغاز ہے۔ اگر اس کا انقعاد پرامن طریقے اور بہتر انتظام کے ذریعے کیا جاتا رہا تو یہ سائیکلنگ کے عالمی نقتشے پر اپنی جگہ بنانے کے تمام لوازمات رکھتی ہے بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔
ایک تو یہ دنیا بھر میں سب سے اونچی سطح سمندر سے 15300 فٹ کے بلند مقام خنجراب پاس تک جاتی ہے اور دوسرا اسے دنیا کی سب سے اونچی پکی سڑک کی ریلی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
پاکستان میں پہلے دنیا کی چھت یعنی شندور پر پولو کھیلنے پر فخر ہے تو اب اس میں سائیکلنگ بھی شامل ہوگئی ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے بعض ممالک کے اسلام آباد میں تعینات سفارت کاروں کے لیے این او سی جاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس میں شرکت نہ کرسکے۔ بتایا جاتا ہے کہ سترہ سفارت خانوں نے این اور سی کی درخواستیں ارسال کی تھی لیکن محض سات کو اجازت مل سکی۔ اگر یہ ریلی بین الاقوامی شکل اختیار کرنی ہے تو این او سی کی بابت حکام کو فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ یہ سب کرنے کی کیا ضرورت؟
گلگت کے مرکزی پارک میں ایک رنگارنگ تقریب میں اس تاریخی ریلی کا آغاز ہوا۔ ایک مقامی بینڈ نے شرکا کو اپنے فن کے زبردست مظاہرے سے لطف اندوز کیا۔ نظر توڑنے کے لیے دھونی اور خوش بینی کے لیے مکھن روٹی کا بندوبست تھا۔ رنگ برنگے غباروں نے آسمان کو سجا دیا۔ جبکہ گلگت کے لوگوں نے بھرپور انداز میں سائیکل سواروں کو اس کے روٹ پر سڑک کے دونوں جانب تالیاں بجا کر داد دی اور ہمت بڑھائی۔ بچوں نے اپنی زبان میں نعرے لگا کر اور جملے کس کر خوب مزا اڑایا۔
ریلی میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی یعنی محض دو نے شرکت کی اور راکاپوشی تک ہمت نہیں ہاری۔ ریلی کے آغاز کا وقت بھی دوپہر دو بجے سائیکل چلانے والوں کے لیے دل میں کوئی نرم گوشہ نہ رکھنے والے سورج نے انتہائی مشکل بنا دیا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ وی آئی پیز کی خاطر اس تقریب کو لیٹ نہیں کیا جائے گا اور جتنی صبح یا ٹھنڈے پہر میں منعقد کی جائے اچھا ہے۔
پہلی مرتبہ شرکت کرنے والے شوقین افراد کے لیے معلومات کی فراہمی کہ کتنا مشکل ہے راستہ، کتنی چڑھائی یا اترائی ہے کچھ زیادہ نہیں بتایا گیا۔ منتظمین کی تمام تر توجہ محض پیشہ ور سائیکل سواروں پر مرکوز تھی۔ منتظمین کو اس ریلی میں دلچسپی بڑھانے کے لیے شوقیہ فنکاروں پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ بچوں اور خواتین کے لیے ان کی صلاحیت کے مطابق راونڈ منعقد کرنا ہوں گے۔
پاکستان فوج، سوئی ناردن گیس سمیت چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کی ٹیمیں میدان میں تھی۔
پہلا مرحلہ بلوچستان کے شاہ سواروں نے دو گھنٹے اور بیس منٹ میں ریس مکمل کر کے جیت لیا۔ اب سب کی نظریں زیادہ اونچائی کی وجہ سے زیادہ مشکل دوسرے اور تیسرے مراحل پر لگی ہیں۔ آکسیجن کی کمی بھی کئی کے لیے بڑا مسئلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ خنجراب ہیر دے کم!