مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کے افتتاح کے موقع پر اسرائیل قومی تفاخر کے احساس سے سرشار ہے، اور اس کو باقاعدہ طور پر منانے کے لیے سالانہ یروشلم ڈے فلیگ مارچ بہت جوش و خروش سے نکالا گیا جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔
دوسری جانب یروشلم میں امریکی سفارتخانے کے قیام پر فلسطینیوں کا احتجاج جاری ہے اور اس ضمن میں اسرائیل سے ملحقہ سرحد کے قریب غزہ کی پٹی پر ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا گیا۔
مقبوضہ بیت المقدس میں نکالے گئے مارچ سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق سفارت خانے کا افتتاح خاص کر اسرائیل کے قیام کی سترہویں سالگرہ پر کیا جارہا ہے اور اس میں شرکت کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ خصوصی طور پر اپنے شوہرجیرڈ کشنر کے ہمراہ اسرائیل پہنچیں۔
ادھر فلسطینی ’نکبہ‘ کے نام سے اس دن کی یاد میں مناتے ہیں جس میں 1948 کی جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کے قیام کے پیشِ نظر 7 لاکھ فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا تھا، فلسطینیوں نے اس افتتاح کے موقع پر بھی احتجاج کرنے کا اعلان کیا۔
جبکہ اسرائیلی اس دن کو 1967 کی 6 روزہ جنگ کے نتیجے میں مقبوضہ بیت المقدس پر قبضے کی یاد میں مناتے ہیں، خیال رہے کہ 1967 کی جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کرلیا تھا، تاہم بین الاقوامی برادری نے آج تک مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا۔
اب امریکا کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس میں سفارت خانے کے اعلان نے اسرائیلیوں کے لیے اس دن کی اہمیت میں مزید اضافہ کردیا۔
اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس کے میئر کا کہنا تھا کہ امریکی سفارت خانے کی منتقلی سے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ پر عملدرآمد کا آغاز ہوجائے گا، جبکہ امریکی ڈپٹی سیکریٹری اسٹیٹ جان سولیوان نے سفارت خانے کی منتقلی کو ایک طویل عرصے سے تسلیم کیے جانے کی منتظر حقیقت قرار دیا۔
افتتاحی تقریب کے پیشِ نظر اسرائیلی پولیس اور فوج نے بڑے پیمانے پر اہلکاروں کی تعیناتی کا منصوبہ ترتیب دیا، اسرائیلی پولیس کے ترجمان مکی روزنفیلڈ کا کہنا تھا کہ تقریباً ایک ہزار کے قریب اہلکار صرف سفارت خانے کے آس پاس کے علاقوں میں تعینات کیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ مارچ میں غزہ کی پٹی کے ساتھ اسرائیلی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں مظاہروں کے سبب 44 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، امریکی سفارت خانے کی منتقلی سے فلسطینیوں کے غصے میں اضافہ ہوا اور امریکا کے ساتھ فلسطین کے تعلقات بھی منجمد ہوگئے۔
یہ بات مدِ نظر رہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کی متنازع حیثیت اسرائیل اور فلسطینی تنازع میں سب سے گھمبیر مسئلہ ہے۔
اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس کے پورے شہر کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ قرار دیتے ہیں، اس ضمن میں عالمی برادری کا اس تنازع کو مذاکرات سے حل کرنے پر اتفاق تھا جسے ٹرمپ کے حالیہ فیصلے نے پارہ پارہ کردیا۔
فلسطین کا موقف
سفارت خانے کی منتقلی پر شاندار تقریبات کے انعقاد سے فلسطینی صدر محمودعباس کے اس موقف کو مزید تقویت ملی جس میں انہوں نے امریکا کی جانب سے اسرائیل فلسطین تنازع میں ثالثی کی پیشکش کو یکسر مسترد کردیا تھا۔
تاہم حال ہی میں فلسطینی صدر محمود عباس نے مذاکرات کی میز پر مشروط واپسی پر آمادگی ظاہر کی اور کہا کہ امریکا کو لازمی طور پر 2 قومی حل کی حمایت کرنی چاہیے، اور مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنا چاہیے۔
اس سلسلے میں ٹرمپ کی جانب سے جیرڈ کشنر کی سربراہی میں مشرق وسطیٰ کی ایک ٹیم کے ہمراہ ڈیل کی افواہوں پر ردِعمل دیتے ہوئے محمود عباس نے کہا کہ ’ہم کوئی ڈیل قبول نہیں کریں گے‘۔
فلسطینی حکام کے مطابق امریکی منصوبے کے حوالے سے کسی بھی اطلاع کی تاحال کوئی تصدیق نہیں ہوسکی ہے، اس حوالے سے سعودی عرب کی جانب سے اطلاعات موصول ہوئیں ہیں، جس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جارہا ہے ممکنہ طور پر مغربی حصے کے کچھ علاقوں اور مقبوضہ بیت المقدس کے چھوٹے سے حصے پر مشتمل غزہ سے ملحقہ ریاست کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔