رمضان کے آتے ہی افطار و سحور کا ذکر شروع ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں رہنے والے مسلمان رمضان کے مبارک مہینے کا احترام کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں اور خواتین خانہ روزہ داری کے ساتھ افطار کے اہتمام میں مصروف ہو جاتی ہیں۔
جب اسلام کا ستارہ چمکا اور رمضان کے روزے کی ابتدا ہوئی اس وقت افطار سادہ ہوتا تھا جس میں تازہ کھجوریں اور اونٹنی کا دودھ شامل تھے۔ جوں جوں اسلام کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اس کے زیر اثر آنے والے ممالک کے پکوان اس کے دسترخوان میں شامل ہونے لگے۔
بہر حال افطار کا ایک مختلف ہی قسم کا دسترخوان ہوتا ہے۔ کچھ پکوان اور غذائيں ایسی ہیں جو ماہ رمضان میں ہی بنائی جاتی ہیں اور لوگ سال بھر ان کے لیے رمضان کا انتظار کرتے ہیں۔
جنھوں نے سالہا سال دہلی کا تمدن دیکھا ہے وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ افطار کا دسترخوان خاتون خانہ کی خانہ داری اور سلیقہ مندی کا نمونہ ہوا کرتا تھا۔ کجھور، چٹپٹی دال، شامی کباب، قلمی بڑے، پالک کے پتے، دہی کے پھلکے، پھلوں کی چاٹ، شربت کے کٹورے وغیرہ۔
افطار پہلے نزدیکی مسجد میں بھیجا جاتا تھا اور پھر دسترخوان کی زینت بنتا تھا۔ اذان ہوتے ہی بچے شور مچاتے گلی گلی دوڑ جاتے۔
مؤذن کی آواز پٹاخوں اور ڈھول کی تھاپ میں گم ہو جاتی اور منارے پر لگی روشنی افطار کے وقت کااعلان کرتی تھی۔
روزے والے روزہ کھولو
دنیا بھر میں افطار کے مختلف مناظر ہوتے ہیں۔ آئیے دنیا کے چند اہم اسلامی ممالک کے افطار پر نظر ڈالتے ہیں۔
مکہ میں افطار
سب سے پہلے ذکر اس مقدس شہر کا جو مکہ شریف کہلاتا ہے۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مکہ میں زائرین کی تعداد بڑھنی شروع ہوتی ہے اور لوگ کعبے کے سامنے بیٹھ کر روزہ افطار کرنا زندگی کا سب سے بڑا لمحہ سمجھتے ہیں۔
مکہ میں بچھائے جانے والے دسترخوان کی لمبائی 12 کلو میٹر ہے جو کعبہ کے گرد لگایا جاتا ہے اور جہاں روزانہ لاکھوں روزہ دار افطار کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان پر دس لاکھ سعودی ریال صرف ہوتے ہیں۔
یہ دنیا کی سب سے بڑی افطاری ہے جو صرف دس منٹ میں سمٹ جاتی ہے اور فرش دھل کر صاف ہو جاتا ہے۔ روزانہ 50 لاکھ کھجوریں اور 20 لاکھ آب زمزم کی بوتلیں افطار کے دسترخوان پر سجائی جاتی ہیں۔ سبحان اللہ، کعبہ شریف کی رونق، اللہ اکبر۔
انڈونیشیا میں افطار
انڈونیشیا وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 90 فیصد ہے۔ یہاں کے لوگ خداترس اور مذہب پرست کے ساتھ صلح کل ہیں۔ انڈونیشیا میں افطار کرنے کو ‘بربوکا پواسا’ کہتے ہیں۔ شام ہوتے ہیں انڈونیشیا میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ روشنی سے شہر جگمگا اٹھتے ہیں اور بازاروں کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔
یہاں بھی لوگ عام طور پر کھجور سے افطار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی میٹھی نرم چیز سے بھی افطار شروع کرتے ہیں تاکہ دن بھر کا بھوکا پیٹ بغاوت نہ کردے۔
کھجور کے ساتھ ہی اونڈے اونڈے کی گولیاں کھائی جاتی ہیں۔ یہ وہاں رمضان کی خاص الخاض غذا کہی جاتی ہے۔ پاندان کے پتے (جو کیوڑہ کے پتے کے مشابہ ہیں) کو پیس کر اس میں کھجور کا شیرہ ملا کر چھوٹی چھوٹی گولیاں بنائی جاتی ہیں اور اس پر تازہ ناریل کے تراشے چھڑک دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کی تھیلیوں میں نوڈلز اور نشاستہ کی گولیاں پاندان کے شربت کے ساتھ بازار میں دستیاب ہوتی ہیں۔
افطار کے دسترخوان پر بیف سموسہ، بالا بالا (ہلکی تلی موسمی سبزیاں)، می گورینگ (مصالحہ دار نوڈلز)، کولک (شکرقندی اور کیلے کے ٹکڑے ناریل کے دودھ اور کچھوڑ کے پیڑے کے ساتھ)، مرتبک اور موسمی پھل وغیرہ ہوتے ہیں۔
ملائیشیا میں افطار
ملائیشیا میں بھی مسلمانوں کی کثیر آبادی رہتی ہے اور وہاں بھی رمضان کی مناسبت سے سحر و افطار کے مذہبی اور اجتماعی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ یہاں بھی افطار کو ‘بربوکا پواسا’ کہتے ہیں۔ رمضان بھر یہاں کی مساجد میں غریبوں کے افطار اور کھانے کا انتظام بڑی فراخدلی سے کرتے ہیں۔
افطار کے دسترخوان پر گنے کا رس، سویابین، دودھ میں نشاستہ کے رنگین ٹکڑے، مختلف قسم کے ساتے، لمبوک (نارریل کے دودھ میں گوشت اور ہلکے مسالے میں پکا ہوا دلیہ)، مرغ اور چاول پلاؤ، مرتبک، ببولا مارک (چاول کا روایتی پکوان) ہوتے ہیں۔ افطار کا سب سے بڑا اہتمام کولالمپور میں ہوتا ہے جہاں روزے کی فضیلت اور مساوات کا ذکر ہوتا ہے۔ اس میں تقریبا 30 ہزار لوگ شامل ہوتے ہیں اور یہ ملائیشیا کا سب سے بڑا افطار ہے جس میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔
مصر میں افطار
مصر میں بھی رمضان کا مہینہ اپنے خوبصورت انداز میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ مصر میں رمضان کے ساتھ فانوس، قندیل اور چراغ کی دلچسپ روایت جڑی ہے۔ روشنی کے یہ منبع ماہ رمضان سے ایسے جڑے ہیں کہ اس ماہ کے آغاز سے قبل ہی اس کی خرید و فروخت شروع ہو جاتی ہے۔ جس طرح مسیحی بیت الحم کا ستارہ اپنے گھروں کی کھڑکیوں پر ٹانگتے ہیں اسی طرح مصری خوبصورت فانوس اپنے گھروں میں لگاتے ہیں۔
حکایت ہے کہ صلاح الدین یوسف (1193-1174) کے دور میں فانوس کا چلن شروع ہوا تھا لیکن بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ سنہ 968 عیسوی میں جب سلطان مفرالدین 15 رمضان کو مصر میں داخل ہوتے تو فانوس اور قندیل کی روشنی میں ان کا استقبال ہوا۔
تصویر کے کاپی رائٹSALMA HUSSAIN
مصر میں افطار کے تھال سجائے جاتے ہیں تاکہ ہر شخص ہر طرح کی غذا کا لطف اٹھا سکے۔ کجھور کے ساتھ خشک میوے انجیر اور کشمش، زرد آلو کے سلاد، رمضان کا مخصوص شربت امرالدین کونافا وہاں افطار کی خاص ڈش ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی ایجاد ایک ڈاکٹر نے کی تھی۔
مصر کی ایک شہزادی کو روزہ سخت امتحان لگتا تھا اور وہ بھوک سے بے حال ہو جاتی تھی اور پھر ایک ڈاکٹر نے کونافا بنانے کے ترکیب بتائي اور کہا کہ سحور میں کھانے سے دن بھر بھوک کا احساس نہیں ہوگا۔ تب سے کونافا افطار و سحر دونوں دسترخوان پر موجود ہوتا ہے۔
٭ سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔