ہر مرتبہ اسٹیج پر مخصوص طلباء ہی انعامات وصول کرنے کے لیے آتے ہیں، مگر اوسط طلباء اور نسبتاً آہستہ سیکھنے والوں کو اپنا ٹیلنٹ دنیا کے سامنے لانے کا موقع نہیں دیا جاتا۔
اسپیلنگ، کوئز اور ڈیبیٹ مقابلوں میں، کھیلوں اور دیگر چیمپیئن شپس میں جنہیں آپ سب ہم نصابی سرگرمیوں کے طور پر جانتے ہیں، ہر اسکول اور کالج کی سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔ یہ مقابلے اس لیے کروائے جاتے ہیں تاکہ طلباء کے ہنر میں بہتری آئے، وہ بااعتماد ہوسکیں، اور ان کی شخصیت میں نکھار آئے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی سیکھنے کا پلیٹ فارم ہے یا پھر مخالف ٹیم کو شکست دینے کا؟
میں اس بارے میں کافی عرصے سے سوچ رہی تھی اور اب میں نے بالآخر اس مسئلے پر اپنے تصورات تحریر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسکول سیکھنے کا پلیٹ فارم ہے، ہے ناں؟ لیکن سیکھنے کا مطلب ریاضی کے فارمولے، فزکس کی ایکوئیشنز، کیمسٹری کے ری ایکشن یا پھر برِصغیر کی تاریخ کو رٹ لینا نہیں ہے، بلکہ سیکھنے سے ہمیں زندگی میں مختلف کام کرنے کا طریقہ آتا ہے، کہ آپ کیسے اپنے لیے اس وقت راستہ بنا سکتے ہیں جب آپ کی مدد کے لیے کوئی موجود نہ ہو۔ پھر جب آپ باہر نکلیں اور نئے اور پریشان کن چیلنجز سے واسطہ پڑے تو آپ کس طرح ایک پُراعتماد اور متوازن شخصیت بن کر اُبھر سکتے ہیں۔
یہ اس بارے میں بھی ہے کہ کسی ایسے شخص سے کیسے معنی خیز گفتگو شروع کی جائے جو بہت کچھ جانتا ہو اور آپ کچھ بھی نہ جانتے ہوں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے اسکولوں میں سیکھنا حقیقی معنوں میں سیکھنا نہیں ہے۔ ہر سال ہم اپنے انہی ہم جماعتوں کو اسٹیج پر مباحثے میں حصہ لینے کے لیے آتا دیکھتے ہیں۔ ہم انہی ہم جماعتوں کو فخریہ انداز میں اسٹیج پر بیٹھے ججز کو کسی لفظ کے ہجے بتاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہی چہرے ہیں جو ہر سال دوسرے اسکولوں سے مقابلے کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ یہ سب نہایت مایوس کن اور غیر منصفانہ ہے، ہے کہ نہیں؟
انتخاب اس معیار پر کیا جاتا ہے کہ ’اس کام کے لیے کون سب سے بہترین ہے‘ یا پھر ’کون مخالف ٹیم کو ہرانے میں ہماری مدد کرسکتا ہے‘ لیکن کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ’کون سیکھنے کا متمنّی ہے لیکن بغیر سپورٹ کے کوئی کیسا سیکھ سکتا ہے؟‘۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ ’کون بہترین ہے؟‘، مگر کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ’بدترین میں بہترین کو کیسے دریافت کیا جائے؟‘
ہر مرتبہ اوسط اور آہستہ سیکھنے والے طلباء پیچھے رہ جاتے ہیں کیوں کہ کوئی بھی انہیں آگے آنے کا موقع نہیں دینا چاہتا۔ ہاں، وہ اس لیے مسترد کردیے جاتے ہیں کیوں کہ ان کا انگلش کا لہجہ اچھا نہیں ہوتا لہٰذا انہیں مباحثے کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا، یا پھر ان کے ہجے کمزور ہوتے ہیں اس لیے وہ اسپیلنگ بی (Spelling Bee) کے مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔
اساتذہ اور اسکول یا اداروں کی انتظامیہ کو یہ چیز ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انگلش ہماری مادری زبان نہیں ہے اس لیے ہمارا لہجہ امریکی یا برطانوی نہیں ہوسکتا۔ کمزور ہجوں کو زیادہ پریکٹس کے ذریعے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ مقابلے میں حصہ لینے والے ذہین ترین طلباء بھی دن اور رات پریکٹس کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہ اعتماد ہمیشہ اساتذہ اور گھر کے بڑے افراد بڑھاتے ہیں، اُس وقت بھی جب بچوں نے بالکل بھی اچھی کارکردگی نہ دکھائی ہو۔
یہ تمام ہنر زندگی میں بتدریج پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ تمام طلباء پیدائشی ذہین یا مباحثے میں طاق پیدا نہیں ہوتے۔ ایک شخص بحث کنندہ کیسے بنے گا اگر اسے کبھی اسٹیج پر چڑھنے کا موقع ہی نہ دیا جائے؟ کوئی اپنے ہجے کیسے بہتر بنائے گا اگر اسے پریکٹس کرنے کی یا کلاس کے سامنے آکر اپنی قسمت آزمانے کی حوصلہ افزائی ہی نہ کی جائے؟ کوئی اچھا بحث کنندہ کیسے بنے گا اگر اس کے آس پاس کے لوگ اس کی حوصلہ شکنی کریں؟
اگر اساتذہ کلاس کے صرف ذہین طلباء پر توجہ دیں گے تو اوسط طلباء کبھی بھی سامنے نہیں آئیں گے۔ وہ ہمیشہ پیچھے رہیں گے اور انہیں کبھی بھی یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ حاضرین کے سامنے کھڑے ہوکر کچھ پیش کرنے کا احساس کیسا ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف اوسط طلباء (جو کہ ذہین طلباء سے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں) کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔
میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی زیادہ ذہین یا زیادہ پُراعتماد نہیں پیدا ہوتا بلکہ یہ والدین کی جانب سے مثبت تربیت اور اساتذہ و والدین کی جانب سے حوصلہ افزائی ہے جس کی وجہ سے بچے پُراعتماد بنتے ہیں اور تیزی سے سیکھ پاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بچے اپنی تعلیمی زندگی میں ایک اور عمومی تصور اپنا لیتے ہیں اور وہ یہ کہ چاہے وہ کچھ بھی کریں مگر ٹیچر کے پسندیدہ طالبِ علم یا طالبہ کو ہی منتخب کیا جائے گا یا جیت اسی کی ہوگی۔ چنانچہ وہ اپنی قسمت آزمانے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔ زیادہ تر طلباء واقعی آگے آنا اور مختلف سرگرمیوں میں اپنی قسمت آزمانا چاہتے ہیں مگر ان کی ویسے رہنمائی یا حمایت نہیں کی جاتی جیسے کہ کچھ بچوں کی، کی جاتی ہے۔
ایک اوسط طالبِ علم یا طالبہ کو تعلیم اور ہم نصابی سرگرمیوں میں اپنا ہنر سامنے لانے کے لیے ہمیشہ زیادہ رہنمائی اور حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے تو وہ خود سے کرنے میں بہت وقت لیتے ہیں یا پھر ممکن ہے کہ وہ کوشش بھی نہ کریں۔ ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں چند مخصوص چہروں کا مختلف غیر نصابی سرگرمیوں میں نظر آنا بھی اسی کی ایک وجہ ہے۔
کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ کلاس کی جو اکثریت پیچھے رہ جاتی ہے، ان میں بھی کوئی ایسا اسپورٹس چیمپیئن یا ماہرِ بحث کنندہ ہوگا جس کو کبھی تربیت یا رہنمائی نہیں ملی؟ آخر ان کا کسی سرگرمی میں کوئی کردار کیوں نہیں ہوتا؟
چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ تمام اسکولوں میں ہم نصابی سرگرمیوں کے منتظمین کو طلباء کی تربیت اور ان کی ذہنی آبیاری پر توجہ دینی چاہیے، مگر اس کا مقصد مخصوص ہاؤس یا ٹیم کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹرافیاں اکھٹی کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ مقصد جیتنا نہیں ہے، بلکہ شرکت کرنے اور یہاں تک کہ شکست سے بھی سیکھنا مقصد ہے۔ مقصد اپنی خامی کو جان کر اپنے اندر بہتری لانا ہے۔
مجھے پختہ یقین ہے کہ اسکول میں ہر بچے کو اسٹیج پر اپنی قسمت آزمانے کا موقع ملنا چاہیے۔ ٹھیک ہے کہ بہترین طلباء کسی بھی مقابلے میں شرکت کرکے اپنا ہنر بروئے کار لا سکتے ہیں مگر ہمیشہ نہیں۔ ہر مرتبہ نئے طلباء کو حاضرین کا سامنا کرنے کا، اپنے خیالات کے اظہار کا اور اپنی کمزوریوں سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
انہیں سکھایا جانا چاہیے کہ ’سیکھو، کمانے کے لیے نہیں۔‘