ویانا: وسطی یورپ کے ملک آسٹریا کی جانب سے 7 مساجد کی بندش اور ترک فنڈز لینے والے اماموں کو بے دخل کرنے کے خلاف فیڈریشن آف مسلم ریزیٹنس (آئی جی جی او) نے حکومتی اعلان پر ‘سخت برہمی’ کا اظہار کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے آسٹریا کی جانب سے اسلام مخالف اقدام پر تنقید کی اور ردعمل کے اظہار کا وعدہ کیا۔
صدارتی ترجمان ابراہیم کلیم نے کہا کہ ویانا کی حکومت ملک میں ‘مذہبی کمیونٹی کی حوصلہ شکنی’ چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ فیصلہ ‘سیاسی اسلام کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب نہیں’ ہے اور اس کے نتیجے میں ‘آسٹریا کی حکومت اور ملک میں رہنے والی مسلم کمیونٹی کے درمیان کسی بھی قسم کے تصادم کے نتیجے میں انتظامی ڈھانچہ کمزور’ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘تاحال آسٹرین حکومت کی جانب سے ‘مساجد کی بندش کے خلاف کوئی ٹھوس جواز’ پیش نہیں کیا جا سکا۔
ابراہیم کلیم نے تنقید کی کہ حکومت نے فیڈریشن کو قبل از اعلان اعتماد میں نہیں لیا اور ماہ رمضان کے ممکنہ طور پر آخری جمعے کو مساجد کی بندش اعلان کر دیا۔
صدارتی ترجمان نے واضح کیا کہ ‘مسائل کے حل کے لیے مشترکہ مذاکرات کی ضرورت ہے بجائے یہ کہ مسلم اقلیت کے پس پردہ ان کے خلاف خود ساختہ فیصلہ کرلیا جائے’۔
ویانا کی حکومت نے جمعہ کو اعلان کیا تھا کہ 7 مساجد کو 2015 کے قوائد وضوابط کی خلاف ورزی پر بند کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ مذکورہ مساجد میں ‘ریاست اور معاشرے میں انتہاپسندانہ اسلام کا پرچار’ کیا جارہا تھا۔
ویانا نے مساجد اور امام کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے، جسے ترکش اسلامک یونین آف آسٹریا (اتب) کی تصدیق حاصل ہے۔
واضح رہے ترک اسلامک کلچرل ایسوسی ایشن ترکی کی مذہبی امور کی ایجنسی دیانت کا حصہ ہے۔
خیال رہے کہ ترکش اسلامک یونین کے منظور شدہ 60 اماموں اور ان کے اہل خانہ کو بے دخل کیا جاسکتا ہے جن پر آسٹریا حکومت نے الزام عائد کیا کہ انہیں انقرہ سے مالی معاونت حاصل ہے۔
دوسری جانب ترکش اسلامک کونین نے مساجد میں انتہا پسندانہ رحجانات پروان چڑھانے سے متعلق آسٹریا کے تحفظات کو قطعی رد کردیا تاہم انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اماموں کی ضروری تربیت کے لیے ترکی محدود مالی معاونت فراہم کرتا ہے۔