جب کبھی لکھنؤ کا ذکر آتا ہے ہمارا ذہن ہندوستان کے شمالی حصے میں واقع نوابوں کی نگری، تہذیب اور نفاست و نزاکت کے گہوارے کی جانب دوڑ جاتا ہے۔ لیکن یہاں اس لکھنؤ کا ذکر نہیں ہے۔
آئیے آپ کو بتائیں کہ لکھنؤ نام کی کئی آبادیاں اور گاؤں دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ آپ کو کیوں مجھے بھی تعجب ہوا تھا لیکن یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔
سب سے پہلے ہم آپ کو سکاٹ لینڈ میں واقع لکھنؤ سے روشناس کرواتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کا ایک چھوٹا سا گاؤں جو مونی فتھ اور بیری کے درمیان واقع ہے لکھنؤ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ علاقہ اینگوس بھی کہلاتا ہے کیونکہ یہاں ایک ٹرانسپورٹ کمپنی تھی اور اینگوس نامی شخص اس کمپنی کے منیجر تھے۔ بس علاقہ اسی نام سے مشہور ہو گيا۔
اس میں کام کرنے والے مزدور آس پاس آباد ہو گئے اور آبادی کا نام لکھنؤ رکھ دیا۔
یہ مکان جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ روا اور ٹیری کی ملکیت ہے اور ان کی دلی خواہش ہے کہ اس مکان کو ایک آرٹ گیلری میں دیں اور اصل لکھنؤ کی طرح اسے بھی ہنر و فن کا گہوارہ بنادیں۔
یہاں سے ہم آسٹریلیا کے مشہور علاقے وکٹوریا پہنچتے ہیں جہاں می شیل دریا کے کنارے آباد ایک چھوٹی سی بستی لکھنؤ کہلاتی ہے اور یہ آسٹریلیا کے معروف شہر ملبرن سے 238 کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے۔ اس کا رقبہ 21۔12 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 1056 افراد پر مشتمل ہے۔
آسٹریلیا کی مشہور مصنفہ اینی ہال نے لکھنؤ نام سے ایک ناول شائع کیا ہے۔ ناول کا کردار ایک مصیبت زدہ خاتون ہے جو بڑے شہروں سے دور ایک چھوٹے گاؤں لکھنؤ آ کر اپنی نئي زندگی کا آغاز کرتی ہے۔ یہ ناول خاصا مقبول ہوا تھا۔
آسٹریلیا کے رہنے والوں کو ہندوستان کے شہر لکھنؤ سے شاید کچھ خاص الفت ہے۔ وکٹوریہ کے بعد نیو ساؤتھ ویلز میں بھی لکھنؤ نامی ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہے جس کی آبادی محض تین سو افراد پر مشتمل ہے۔
لکھنؤ نامی ناول کا سر ورق
یہ گاؤں آسٹریلیا کے مشہور شہر سڈنی سے 245 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ جگہ کسی زمانے میں سونے کی کانوں کے لیے مشہور تھی اور شاید کان کنوں کی آبادی کا مرکز یہ چھوٹا سا گاؤں لکھنؤ تھا۔
حکایت ہے کہ پہلی بار سنہ 1863 میں اس جگہ کا نام لکھنؤ رکھا گیا۔ انگریزوں نے جب ہندوستان میں لکھنؤ کا محاصرہ کیا تو یہاں کا ایک مزدور وہاں کی فوج میں شامل تھا۔ مجروح ہونے کے بعد لوٹ کر اپنے وطن آیا اور اس جگہ کا نام لکھنؤ رکھا۔
دوسری روایت ہے کہ چونکہ سونے کی کان نے بہت سے لوگوں کی زندگی بدل دی اس لیے یہ ان کے لیے لکھنؤ جیسا ہو گيا۔ ان میں کون سی کہانی درست ہے اس کا علم نہیں۔
آسٹریلیا سے ہوتے ہوئے آئیے ہم دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ پہنچتے ہیں۔ امریکہ کے تین علاقوں میں لکھنؤ نام کی آبادی پائی جاتی ہے۔
امریکہ کے دوسرے دو علاقوں میں بھی لکھنؤ نام کی آبادی پائی جاتی ہے۔ اور یہ آبادیاں پنسلوینیا اور ساؤتھ کیرولینا میں ہیں۔ ان کی دیگر تفصیلات حاصل کرنے میں ابھی تک ناکامی کا سامنا ہے۔
امریکہ کے دوسرے دو علاقوں میں بھی لکھنؤ نام کی آبادی پائی جاتی ہے۔ اور یہ آبادیاں پنسلوینیا اور ساؤتھ کیرولینا میں ہیں۔ ان کی دیگر تفصیلات حاصل کرنے میں ابھی تک ناکامی کا سامنا ہے۔
ڈونلڈ ڈینی یہاں کا معروف پہلوان اور ورز ش کار میں دنیا بھر کی شہرت کا مالک تھا جس نے سنہ 1882 میں بین الملکی مقابلوں میں حصہ لیا اور کامیاب ہوا۔ اس کے وجود کے بارے میں بھی کئی کہانیاں پائی جاتی ہیں اور اسے فوک ہیرو کہا جاتا ہے۔
اس شہر کے کئی محلے اور گلیاں ہندوستان سے لوٹنے والے انگریزی فوج میں شامل فوجی افسران اور پیادہ سپاہی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سنہ 1856 میں یہاں ایک بند بنا گیا اور ساتھ ہی اسلحہ بنانے کے کارخانے کی بنیاد رکھی گئی۔
رالف ملر نامی شخص نے اس علاقے کا بڑا حصہ خرید لیا اور اسلحہ کارخانہ بھی اپنے نام کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کا مقصد لکھنؤ میں آباد لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانا تھا۔
جون کے چوتھے مہینے میں یہاں بڑے پیمانے سٹرابیری فیسٹیول منایا جاتا ہے۔ کھیلوں کے مقابلے، باڈی بلڈنگ کے مقابلے، رقص و سرود کی محفلیں، خوانچے والوں کا بازار شہر کی رونق بڑھاتا ہے۔
اس کے علاوہ یہاں سہ روزہ موسیقی کا مقابلہ بھی منعقد کیا جاتا ہے جہاں گردو نواح کے شہروں کے موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان سے جمع کی گئی رقم کو شہر کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے۔
اگست کے آخری ہفتے میں یہاں سوکر یعنی فٹبال کا مقابلہ ہوتا ہے جسے دیھکنے ہزاروں تماشائی آتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کی ہاکی ٹیم بھی خاصی شہرت رکھتی ہے۔ لکھنؤ کا اپنا روزنامہ لکھنؤ سینٹینل ہے۔
بیرونی ممالک سے ہوتے ہوئے جب ہم ہندوستان پہنچتے ہیں تو انڈومان نکوبار کی مایا بندر تحصیل میں بھی ایک لکھنؤ نظر آتا ہے۔ یہ پورٹ بلیئر سے 234 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کی آبادی صرف 874 افراد پر مشتمل ہے۔
دس فیصد آبادی بچوں کی ہے اور یہاں کا تعلیمی معیار خاصا بلند ہے۔ گاؤں کا انتظام ایک سرپنچ کے سپرد ہے جسے گاؤں کے لوگ منتخب کرتے ہیں۔
یہ ایک ذکر لکھنؤ تھا جو دنیا کے گوش و کنار میں پھیلا لکھنؤ کی شان رفتہ کی یاد تازہ کرتاہے۔
٭ سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔