مفتی محمد صادق حسین قاسمی
15 اگست کی تاریخ ہندوستان کی ایک یادگار اور اہم ترین تاریخ ہے، اسی تاریخ کو ہمارا یہ پیارا وطن ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا، اور طوقِ سلاسل کا سلسلہ ختم ہوا۔ تقریبا دوسوسال تک مسلسل قربانیوں اور جانفشانیوں کے بعد آزادی کا یہ دن دیکھنے کو نصیب ہوا، جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور سب کچھ لٹانے کے بعد ہمارا ہندوستان آزاد ہوا۔
آج ہم جو اطمینا ن اور سکون کی زندگی گزاررہے ہیں، اور آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں یہ سب ہمارے مسلم عوام اور علماء کی دَین ہے۔ اگر مسلمان میدان ِ جنگ میں نہ کود تے اور علماء مسلمانوں کے اندر جذبہ ٔ آزادی کو پروان نہ چڑھاتے تو پھر شاید کبھی یہ ہندوستان غلامی سے نجات نہیں پاسکتا تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت اور ناقابل ِ فراموش سچائی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی، اور اپنی آنکھوں میں اپنے پیارے وطن کی آزادی کے خواب لئے جان وتن نچھاور کیا۔ سخت ترین اذیتوں کو جھیلا، خطرناک سزاؤں کو برادشت کیا، طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے، حالات و آزمائشوں میں گرفتار ہوئے، لیکن برابر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے اور ہر ہندوستانی کو بیدار کرتے رہے، کبھی میدان سے راہ ِ فرار اختیار نہیں کی اور نہ ہی کسی موقع پر ملک ووطن کی محبت میں کمی آنے دی۔ ایک عظیم مؤرخ رقم طراز ہیں کہ:ہمارے آباء و اجداد نے ہندوستان کی عظمت اور آزادی کو پامال کرنے والی اس سفید فام قوم کو اپنے رگوں کے خون کے آخری قطرے تک برادشت نہیں کیا۔ ہندوستان میں بسنے والی ہندوستانی قوم جو مختلف مذاہب اور مکتبہ ٔ فکر کی تہذیب اور تمدن کے مختلف ومتضاد عناصر کو لے کر وجود میں آئی تھی، اس کی عزت و حرمت بچانے کے لئے پہلے پہل ہم نے خود اپنی ذات کوقربانی کے لئے پیش کیا۔ 1857 ء کے بعد نصف صدی تک انگریزی سامراج کو شکست دینے کے لئے ہم تن ِ تنہا جنگ ِ آزادی میں زور آزمائی کرتے رہے اور ہم نے اس راہ میں اپنا خون اتنا بہا یا کہ پوری جنگ ِ آزادی کے میدان میں دوسروں نے اتنا پسینہ بھی نہیں بہایا ہوگا۔
ڈاکٹر مظفر الدین فاروقی لکھتے ہیں کہ:1857 ء کی جنگ ِ آزادی میں مسلمانوں نے بہ حیثیت مجموعی جس شدت سے انگریز مخالفت کا ثبوت دیا تھا اس سے انگریزوں کی آنکھیں کھل گئیں، انگریزاچھی طرح جانتے تھے کہ ہندوستان میں مسلمان سب سے بہتر قوم ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر ہنٹر لکھتے ہیں : ’’حقیقت یہ ہے کہ جب یہ ملک ہمارے قبضے میں آیا تو مسلمان ہی سب سے اعلی قوم تھی۔ وہ دل کی مضبوطی اور بازوؤں کی توانائی میں برتر نہ تھے بلکہ سیاسیات اور حکمت عملی کے علم میں بھی سب سے افضل تھے۔ ( ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا حصہ :123)غرض یہ کہ مسلمانوں نے آزادی کی جنگ میں ناقابل ِ فراموش کردار اداکیا اور جان ہتھیلیوں میں رکھ انگریزوں کا مقابلہ کیا اور صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام برادران ِ وطن کی آزادی، ان کے تحفظ، ملک کی سلامتی، تہذیب وتمدن کی حفاظت، اور انسانی حقوق کی بحالی کے لئے جنگ ِ آزادی میں بے مثال کارنامہ انجام دیا۔ آزادی کی یہ تاریخ بڑی طویل بھی ہے اور دردناک اور کرب انگیز بھی، خاک وخون میں تڑپتی لاشوں کے نظارے بھی ہیں اور اولوالعزم مجاہدوں اور جانبازوں کے ولولے بھی، وطن سے بے لوث محبت اور الفت کے نقوش بھی ہیں اور پیارے وطن کے لئے قربانیوں کا طویل سلسلہ بھی۔ آئیے ایک مختصر نظر اس کی تاریخ پر ڈالتے ہیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی: 24ستمبر1599ء میں لندن کے تاجروں نے آپس میں مل کر تہیہ کیا کہ مشرقی ممالک سے تجارت شروع کرنی چاہیے، چنانچہ اس غرض سے باقاعدہ ایک کمپنی ( ایسٹ انڈیا کمپنی)قائم ہوئی، جس میں لندن کے دوسو سے زیادہ تاجراور امراء شریک تھے۔ 21 دسمبر1600 ء کو ملکہ الزبتھ نے اس کمپنی کو شاہی منشور کے ذریعہ سے بلا شرکت غیر ممالک مشرق سے تجارت کرنے کے پورے حقوق عطافرمائے گویا کمپنی کو مشرقی تجارت کا باضابطہ اجارہ مل گیا۔ سترہویں صدی کے شروع میں کمپنی کی طرف سے انگریز تاجر ہندوستان پہنچے۔ چنانچہ 1612 ء میں اول مغربی سال پر بمقام سورت انہوں نے کاروبار شروع کیا۔ ۔ ۔ ۔ نووارد تاجروں پر ہندوستان کے فرمانرواؤں نے اپنی بے تعصبی اور دریا دلی سے کیا کیا احسان کئے اور کیسی کیسی رعایات و مراعات روا رکھیں جو بعد میں ان کی چلاکی اور احسان فراموشی سے خود ان کے حق میں وبال ِجان بن گئے اور دوسروں کے واسطے خیر اندیشی اپنے حق میں سخت ناعاقبت اندیشی ثابت ہوئی۔ گذشتہ تین صدی کی تاریخ ہند کا یہ سب سے بڑا سبق ہے کہ ہندوستانی فرمانرواؤں کے بے جا رعایات اور بے محل اعتماد نے ہندوستان کو آنکھوں دیکھتے ہاتھوں سے نکال دیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے بہانے انگریز ہندوستان آئے اور یہیں پر قابض ہوگئے بلکہ یہاں کے باشندوں کو اپنا غلام بنالیا۔
پُلاسی کی جنگ: انگریزوں نے رفتہ رفتہ اپنے پاؤں پھیلانے شروع کئے لیکن اورنگ زیب عالمگیر ؒ کی وفات یعنی1707ء تک مغلیہ حکومت مضبوط ہونے کی وجہ سے انگریزوں کو باقاعدہ کامیابی نہیں مل سکی۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد جب دہلی کا مرکز کمزور پڑگیا اور صوبہ جات میں طوائف الملوکی کا دور شروع ہوا تو اب ’’ ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ اپنے بال وپر نکالنے لگی۔ جس کا پہلا افسوس ناک سانحہ 1757ء میں پُلاسی کے میدان میں رونماہوا جب بنگال کے نواب ’’سراج الدولہ‘‘کی فوجیں اپنوں کی درپردہ سازش کا شکار ہوکر ایسٹ انڈیا کمپنی کے مٹھی بھر منظم فوج کے مقابلہ میں شکست سے دوچار ہوئی۔ ( تحریک ِ آزاد ی میں مسلم عوام اور علماء کا کردار :17)نواب سراج الدولہ کے ساتھ غداری کرنے والا ’’میر جعفر‘‘ تھا جس نے انگریزوں کی چاپلوسی کرکے نواب کو شکست سے دوچار کیا۔ نواب سراج الدولہ گویا آزای ٔ ہند کے سب سے پہلے مجاہد تھے جن کی دوررس نگاہوں نے محسوس کرلیا تھا کہ یہ انگریز اس ملک پرمکمل قبضہ کرناچاہتے ہیں اسی لئے ان کے خلاف اٹھنے والے اور علم ِ بغاوت بلند کرنے والے سب سے پہلے محب ِ وطن سراج الدولہ تھے۔
سری رنگا پٹنم کا معرکہ: بنگال پر جب کمپنی نے قبضہ کرلیا تو وہاں پر ظلم و ستم کی سیاہ تاریخ رقم کی اور عوام کے ساتھ نہایت سفاکانہ برتاؤ کیا۔ انگریزوں کے خلاف دوسرے نمبر پر صدائے حریت لگانے والے اور ملک وملت کے لئے جان وتن لٹانے والے مرد ِ مجاہد شیر ِ میسور ٹیپوسلطان شہید ؒ ہیں۔ حضرت مولاناواضح رشید ندوی صاحب لکھتے ہیں :یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے لئے سب سے زیادہ خطرہ سلطنت خداداد کے استحکام کو سمجھتی تھی، اورسلطان ٹیپو شہید ؒ کو راستہ کا ایک بڑاپتھر خیال کرتی تھی، جو اس کے مقاصد اور منافع تک رسائی میں پوری طرح حائل اور ان کے غلبہ کے نقصانات کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے، یہی وجہ تھی کہ و ہ انگریزوں کے سلسلہ میں ذرا بھی لچک اور نرمی روانہ رکھتے تھے، اس لئے انگریز کسی بھی صورت میں سلطنت خداداد کو تہس نہس کرنے کا ارادہ کرچکے تھے، اس کے لئے انہوں نے تمام تر ترکیبیں اور صورتیں اختیار کیں۔