شام کے شکست خوردہ دھشتگرد ٹولے داعش نے افغانستان میں شیعہ مراکز کو خود کش حملوں کا نشانہ بنا کر اپنی درندگی کا ثبوت دینا شروع کر دیا ہے۔
افغانستان کے شہر کابل کے مغربی علاقے ’’دشت برچی‘‘ میں واقع ’’مہدی موعود‘‘ تعلیمی مرکز پر کئے گئے خودکش حملے میں ۴۸ افراد شہید جبکہ ۶۷ زخمی ہو گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بتایا ہے کہ خود کش بمبار نے کابل کے علاقے دشت برچی میں ایک نجی تعلیمی ادارے کو نشانہ بنایا جہاں نوجوان طلبا اور طالبات یونیورسٹی میں داخلے کے لئے ٹیسٹ کی تیاری کررہے تھے۔
خبروں کے مطابق خود کش دھماکے سے قبل فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا جس کے باعث یہ خیال کیا جارہا تھا کہ حملہ آور ایک سے زائد ہیں تاہم بعد میں بتایا گیا کہ حملہ آور ایک ہی تھا۔
پولیس ترجمان حشمت استانکزئی نے خود کش حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور پیدل آیا تھا جس نے خود کو تعلیمی ادارے کے اندر دھماکے سے اڑا لیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ نے اس دہشت گردانہ حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔دوسری جانب کابل شہر کی علما کونسل نے کہا ہے کہ یہ حملہ دہشت گرد گروہ داعش نے کیا ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں تعلیمی مراکز پر یہ پہلا خودکش حملہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی دھشتگرد ٹولے داعش نے ایک مدرسے پر حملہ کر کے ۵۷ افراد کو لقمہ اجل بنا دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق کابل کے مغربی علاقے میں ایک درس گاہ موعود اکیڈمی کے باہر زور دار بم دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں کم از کم 60 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے، جاں بحق و زخمی ہونے والوں کو قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ افغان وزارت صحت کی جانب سے دھماکے میں 25 افراد کے جاں بحق اور 35 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
محکمہ صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 75 سے زائد افراد کو اسپتال لایا گیا جبکہ بعض زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، ہلاک و زخمی ہونے والوں میں طلبہ و طالبات شامل ہیں۔
کابل پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دھماکے کے وقت درس گاہ میں 100 سے زائد طلبا موجود تھے، دھماکے کے بعد درس گاہ میں افراتفری مچ گئی اور ہر جانب دھواں پھیل گیا، دھماکے کی ذمے داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔