بارہ سالہ جیک کے ہفتے بھر کا شیڈول مکمل طور پر طے ہے۔ پیر کی صبح چھ بجے اس کا الارم بجنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ ساڑھے سات بجے ریاضی کے سوالات حل کر رہا ہوتا ہے۔
منگل کے روز مینڈرین کی کلاس کے بعد جیک کو 45 منٹ کا وقفہ ملتا ہے۔ اسی طرح اسے جمعہ کے روز بھی 4:50 سے لے کر 5:15 تک پچیس منٹ کا وقفہ ملتا ہے۔
سنیچر کو بھی ریاضی، سائنس، مینڈرین اور انگلش کی کلاسیں ہوتی ہیں لیکن اس روز کا شیڈول بہت سخت نہیں ہوتا اور دو گھنٹے کی بریک بھی ملتی ہے لیکن اتوار کے روز جیک کے ہفتے بھر کے اوقاتِ کار پھر شروع ہو جاتے ہیں۔
سنگاپور کے ہزاروں بچے جیک کی طرح پرائمری سکول کے امتحانات کی تیاری کے لیے اسی طرح کے شیڈول پر عمل کرتے ہیں۔
بارہ سالہ جیک کی ماں شیرل آؤ کہتی ہیں کہ جیک اپنی پڑھائی کے اوقاتِ کار کی زیادہ شکایت نہیں کرتا کیونکہ اس کے اوقاتِ کار اپنے دوستوں کی نسبت زیادہ سخت نہیں ہیں۔
’جب بھی میں دوسرے والدین سے بات کرتی ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مجھے جیک کے لیے اور کتابیں خریدنے کی ضرورت ہے۔‘
سنگاپور کے تعلیمی نظام کو دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے۔ اس کے طالبعلم آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریش اینڈ ڈیویلمنٹ(آو آئی سی ڈی) کے تحت ہونے والے پی آئی ایس اے کے امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔ یہ امتحان 75 ممالک میں سائنس، ریاضی اور مطالعے کو جانچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
پی آئی ایس اے کے امتحانات میں سنگاپور کے طالبعلموں کی اچھی کارکردگی کی کئی وجوہات میں سے ایک ملک کی بیوروکریسی ہے جو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ہے اور ان کا مشن بلکل واضح ہے کہ انھوں نے سنگاپور کو دنیا کا امیرترین، ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ملک بنانا ہے۔
گلاسگو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے کلائیو ڈموک کہتے ہیں کہ سنگاپور کے اعلیٰ تعلیمی معیار کی وجوہات میں سے ایک اس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ ہیں۔ سنگاپور میں اساتذہ کی تنخواہوں کا موازنہ صنعتی اور معاشی سیکٹر کے ملازمین سے کیا جا سکتا ہے۔
اساتذہ کے لیے عمدہ تنخواہ یونیورسٹی کے ہونہار طالبعلموں کو تعلیم کے شعبے کی طرف کھینچ لاتی ہے۔ سنگاپور میں ایک نئے ٹیچرکی تنخواہ 1800 سے 3300 ڈالر ماہانہ سے شروع ہوتی ہے اس تنخواہ کے علاوہ انھیں اورٹائم اور بونس بھی ملتا ہے۔
سنگاپور اپنے سرکاری بجٹ کا 20 فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔
ایک وقت سنگاپور ایشیا کا سب سے غریب ملک تھا۔
سنہ 1965 میں جب سنگاپور نے ملائیشیا سے آزادی حاصل کی تو اس وقت ملک کی اشرافیہ کے علاوہ کسی کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں تھی اور ملکی اعداد و شمار کے مطابق سنگاپور کی آدھی آبادی ناخواندہ تھی۔
سنگاپور کے پاس تیل جیسے قدرتی ذخائر نہیں تھے لہٰذا اس نے اپنے انسانوں میں سرمایہ کاری کی پالیسی اپنائی۔
سنگاپور میں آمرانہ نظام حکومت ہے اور شہریوں کو کچھ بنیادی آزادیاں بھی حاصل نہیں ہیں۔ سنگاپور میں سماجی تحفظ فرمانبرداری سے جڑا ہوا ہے اور یہ ہی فلسفہ تعلیمی نظام میں بھی بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔
سنگاپور میں ایک سوچ ہے جسے مقامی زبان میں کائیسو کتہے ہیں۔ کائیسو کسی چیز سے محرومی کے جذبے کی نشاندہی کرتی ہے اور یہ ہی سوچ ملکی آبادی کی نفسیات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
سابق استاد ڈان فنگ کائیسو جذبے کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کائیسو سوچ ان بچوں کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتی ہے جن کے خاندان سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے گریڈ حاصل نہیں کر پائیں گے۔
اچھے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے پرائمری سکول کے وقت سے ہونے والے مقابلے کے امتحان، پی ایس ایل ای کو پاس کرنے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں جہاں سے ان کے لیے اچھے سکینڈری سکولوں اور یونیورسٹیوں کے راستے کھل جاتے ہیں۔
ڈان فننگ بتاتی ہیں کہ سنگاپور میں بچوں کا کریئر دو برس کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے۔ سنگاپور میں بچے مقابلے کے اس امتحان کی تیاری کے لیے پرائیویٹ ٹیوشن بھی حاصل کرتے ہیں۔
جیک کی والدہ شیرل آؤ اپنے بچے کی پرائیویٹ ٹیوشن پر ماہانہ 700 پونڈ خرچ کرتی ہے۔
سنگاپور کے اخبار سٹریٹ ٹائمز کے مطابق ملک میں پرائیویٹ ٹیوشن کی صنعت بہت منافع بخش ہے اور اس کا حجم 750 ملین ڈالر ہے۔
ان ساری کوششوں کے باجود جیک پی ایس ایل ای کے امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور وہ اس سکول میں داخلہ لینے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کے لیے وہ اتنی محنت کر رہے تھے۔
ڈان فنگ کہتی ہیں کہ ملک میں پرائیویٹ ٹیوشن کی صنعت کا حجم اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ پی ایس ایل ای کے امتحان کتنے مشکل ہیں۔
ڈان فنگ جب خود ماں بنیں تو انھوں نے روایتی نظام تعلیم کو چھوڑ کر اپنے بچوں کو گھر میں تعلیم دینے کو ترجیح دی۔
ڈان فنگ کہتی ہے کہ ایسے نظام کا حصہ بننا غلط ہےجو آپ کو ناخوش بناتا ہے۔ ’یہ ظالمانہ فعل ہے کہ بچوں کو اس تعلیمی نظام کا حصہ بنایا جائے جس سے مثبت تعلیمی نتائج حاصل نہ کیے جا سکیں۔‘
ڈان فنگ کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر پر تعلیم دینے کے لیے قومی نصاب کو تسلیم کریں اور اپنے بچوں کو پی ایس ایل ای کے امتحان میں شامل کریں اور پھر ان کے گریڈ قومی اوسط کے مطابق ہونے چاہییں۔
شیرل آؤ پریشان ہے کہ اس کے بیٹے جیک کی پی ایس ایل ای کے امتحان میں ناکامی اس کے لیے بدنامی کا باعث ہے جو اس کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پہنچنے میں روکاوٹ بنے گی۔
وہ کہتی ہے کہ ’وہ (جیک) غمگین ہے‘
جیک جو پائلٹ بننا چاہتا ہے، وہ ایک بار پھر مقابلے کے امتحان کے لیے تیاری کر رہا ہے۔
مقابلے کے اس ماحول کے منفی نتائج ہیں۔ سنگاپور میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اضطراب اور ہیجان سے متاثر ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ایک مقامی این جی او کے مطابق سنگاپور میں 10 سے 29 برس کی عمر کے افراد کی موت کی وجوہات میں ذہنی اضطراب اور پریشانی سب سے نمایاں ہے۔
سنگاپور کی کیمونیکیشن کی وزیرآنگ یی کنگ کہتی ہیں: ’ہم اس کی ضمانت دیتے ہیں کہ ایسا نظام تعلیم وضح کریں گے جو طالبعلموں کے لیے بہت مشکل نہ ہو۔‘
سنگاپور کی حکومت نے ایک ایسی تعلیمی پالیسی متعارف کرائی ہے جس میں زیادہ توجہ چیزیں زبانی یاد کرنے کے بجائے تعلیم حاصل کرنے پر ہے اور اس تعلیمی پالیسی ’تھنکنگ سکول‘ کا نعرہ ہے ’پڑھاؤ کم ، سیکھو زیادہ۔‘
گلاسگو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے کلائیو ڈموک بتاتے ہیں کہ اس نظام تعلیم میں بچوں کو اپنے انداز میں پڑھنےاور گروپوں میں سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود ایسے طلبا جو اچھے گریڈ حاصل نہیں کر پاتے ان کے ساتھ مختلف رویہ روا رکھا جاتا ہے۔
کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر میتھیو اٹنسیو 2011 میں سنگاپور کے تعلیمی نظام میں اساتذہ کی کارکردگی جاننے کے لیے سنگاپور گئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سنگاپور کی تعلیم میں اساتذہ کی کارگردگی بہت شاندار نہیں ہے۔ پروفیسر میتھیو اٹنسیو نے اس نظام تعلیم میں عدم مساوات کو محسوس کیا۔
’وہ کہتے ہیں کہ دولتمند خاندان اپنے دولت کے بل بوتے پر اچھے اداروں میں پہنچ سکتے ہیں۔ وہ مقابلے کے ان امتحانوں میں کامیابی کے لیے پرائیویٹ ٹیوشن حاصل کر سکتے ہیں جو ان کے بچوں کو کم وسائل والے خاندان کے بچوں پر برتری دلاتا ہے جو آگے چل کر انھیں اعلی یونیورسٹیوں، سوشل اور پروفیشنل نیٹ ورکس میں بھی کامیابی دلاتا ہے۔
پروفیسر میتھیو انٹسیو سمجھتے ہیں کہ ایسا تعلیمی نظام ہونا چاہیے جو پسماندہ خاندانوں کی مدد کرے اور وہ سماجی انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔