اس وقت میری بیٹی سو رہی تھی اور میں شور مچا کر اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
میں بہت گھبرایا ہوا تھا، بار بار زور دینے کے باوجود اس نے دروازہ نہیں کھولا۔ میں سوچ رہا تھا مجھ سے کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہو گئي؟
میری بیوی کا فون مسلسل بج رہا تھا، وہ اسے اٹھا نہیں رہی تھی۔ جب میں اس کا فون اٹھانے پہنچا تو اس نے میرے ہاتھوں سے فون چھین لیا اور باتھ روم میں چلی گئی۔ اس نے اندر سے دروازہ بند کر لیا۔
خوف کے عالم میں نے دروازہ توڑا اور اس کے ہاتھ سے فون چھین کر اسے دیکھنے لگا۔
میں حیران تھا کہ اس نے ایک نمبر پر ایک پیغام بھیجا تھا اور اسی نمبر سے اسے کئی مسڈ کال آئی تھی۔
میسیج میں لکھا گیا تھا: ‘میرا فون نہ اٹھانا ابھی میرا فون میرے بھائی کے پاس ہے۔’
اس پیغام کو پڑھنے کے بعد میں اور بھی خوفزدہ ہو گیا اور میں نے اسے کچھ بھی نہیں کہا کہ وہ باتھ روم میں دوبارہ نہ بند ہو جائے یا پھر خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے۔
اگلی صبح میرے دو دوست آئے اور اس سے بات کرنے لگے۔ میری بیوی انھیں اچھی طرح جانتی تھی کیونکہ وہ ہمارے جھگڑے سلجھانے ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔
مجھے اور بیٹی کو بھی چھوڑ دیا
میرے دونوں دوست میری بیوی کو سمجھا رہے تھے کہ وہ میرے ساتھ رہے اور بچی کے بارے میں سوچے۔ اس کے علیحدہ ہونے سے یہ گھر ختم ہو جائے گا۔۔۔ لیکن اس نے اپنا حتمی فیصلہ کر لیا تھا۔
اس نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس کے لیے اب یہاں ‘زندگی’ گزارنا ممکن نہیں ہے۔
اگلے دن اس نے گھر چھوڑ دیا لیکن اس بار وہ ہماری بیٹی کو اپنے ساتھ نہیں لے گئي۔ اس نے مجھے اور اپنی بیٹی دونوں کو چھوڑ دیا۔
میں اندر سے ٹوٹ گیا، بہت تنہا محسوس کر رہا تھا لیکن اس کے ساتھ یہ اطمینان بھی تھا کہ کم از کم تین سالہ بیٹی تو میرے پاس ہے۔
ہم دونوں نے محبت کی شادی کی تھی اور ہمیں شادی کے لیے اپنے اپنے خاندانوں سے بہت لڑنا پڑا تھا۔
جب ہماری بیٹی صرف تین مہینے کی تھی اس وقت بھی اس نے گھر چھوڑا تھا لیکن بیٹی کو ساتھ لے گئی تھی۔ پھر ایک دوست کے سمجھانے کے بعد واپس آ گئي تھی۔
لیکن اس بار وہ مجھے اور میری بیٹی دونوں کو چھوڑ گئی اور کچھ دنوں بعد آئی تو ‘طلاق کے کاغذات’ کے ساتھ۔
عدالت میں سماعت کے دوران اس نے واضح طور پر کہا کہ بیٹی کی دیکھ بھال اس کا والد بہتر طور پر کر سکتا ہے۔
میں اور میرے والدین اس بات سے خوش تھے کہ میری بیٹی میرے ساتھ رہے گی۔
اکیلے بیٹی کی ذمہ داری اٹھانا
ہماری علیحدگی کے ابتدائی دنوں میں مجھے اکثر خواب آتے کہ ہم ایک بار پھر ساتھ ہیں اور تینوں ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔
پھر کبھی کبھی مجھے خوف آنے لگتا کہ کسی دن وہ واپس نہ آ جائے اور میری بیٹی کو مجھ سے چھین نہ لے۔
جب ہم ساتھ تھے تو ہم اپنی بیٹی کی ذمہ داری تقسیم کر لیتے تھے لیکن اب ساری ذمہ داریاں مجھے تنہا ہی اٹھانی تھیں۔
میرے والدین بھی میری مدد کرتے تھے۔ لیکن میں چاہتا تھا کہ میری بیٹی کو کبھی بھی اپنی ماں کی کمی محسوس نہ ہو۔
چھوٹی عمر سے ہی میری بیٹی کو تاریخی مقامات پر جانے کا شوق تھا اس لیے کئی بار میں اسے مختلف مقامات پر لے گیا۔
اس دوران جب کوئی کبھی پوچھتا کہ تمہاری ماں کہاں ہے، تو وہ چپ ہو جاتی۔
جب بھی مجھے کوئی برا بھلا کہتا تو وہ میرا بچاؤ کرتی یا پھر میں پریشان یا مایوس ہوتا تو وہ میری حوصلہ افزائی کرتی۔
اس نے کبھی اپنی ماں کے بارے میں مجھ سے نہیں پوچھا۔ لیکن ‘ماں’ لفظ سننے پر اس کی خاموشی سے مجھے اس کی دلی کیفیت کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ ماں سے زیادہ کھل کر باتیں کہہ سکتی تھی۔
کچھ سال قبل مجھے خطرناک حادثہ پیش آیا اور مجھے شدید زخم آئے۔ جب میں ہسپتال میں اور گھر میں ان زخموں سے لڑ رہا تھا تو میری بیٹی میرا بڑا سہارا بنی۔
وہ میری دواؤں کا خیال رکھتی، ہمیشہ میرے ساتھ رہتی۔
اتنا ہی نہیں وہ میری ماں یعنی اپنی دادی کی بیماری کا بھی خیال رکھنے لگی۔ میری والدہ ذیابیطس کی مریضہ ہیں تو وہ انھیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق انسولین دیتی ہے۔
دوسری شادی نہیں کی
بہت سے لوگوں نے دوسری شادی کرنے کا مشورہ دیا لیکن میرے لیے پہلی بیوی کو بھلا پانا آسان نہیں تھا۔ ہماری محبت کی شادی تھی۔
اب میری بیٹی 13 سال کی ہے اور میرے والدین چاہتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ زیادہ باہر گھومنے نہ جائے کیونکہ اگر سفر کے دوران اسے حیض آ گیا تو میں اسے سنبھال نہیں پاؤں گا۔
لیکن میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ اگر اسے حیض شروع ہوتا ہے تو میں اسے اس کے بارے بتاؤں گا کہ یہ چیزیں لڑکیوں کو مہینے میں چندر روز ہوتی ہیں۔
وہ کلپنا چاولا کی طرح ایک خلائی مشن پر جانا چاہتی ہے۔ وہ پڑھائی میں بھی بہت اچھی ہے۔ میری دوسری شادی نہ کرنے کی ایک وجہ شاید یہ خیال بھی ہے کہ اگر دوسری شادی کر لی تو اپنی بیٹی کو اتنا وقت نہیں دے سکتا جتنا اب دیتا ہوں۔
میں اتنا جانتا ہوں کہ اگر میں دوسری شادی کے لیے تیار ہو جاؤں تو میری بیٹی مجھے نہیں روکے گی اور نہ ہی اس میں کوئی رکاوٹ پیدا کرے گي۔
سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں یہ ڈر گھر کر گیا ہے کہ اگر میرے اور میری بیٹی کے درمیان ایک عورت آئی تو ہمارے درمیان کہیں غلط فہمیاں پیدا نہ ہو جائيں۔
اگر دوسری عورت میری بیٹی کو معمولی بات بھی کہے گی تو مجھے شاید برا لگے اور میرا دوسرا رشتہ بھی خطرے میں پڑ جائے۔ اور میں دوسری بار اس درد سے نہیں گزرنا چاہتا۔
یہی وجہ ہے کہ میں دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا۔
میری زندگی کا اب صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ میری پیاری بیٹی کی خوشی ہے۔