برِصغیر پاک و ہند کا شاید ہی کوئی ریگولر فلم بین ہو جس نے ’پائریٹس آف دا کریبین‘ سیریز کی کوئی ایک آدھ فلم نہ دیکھ رکھی ہو۔ اس سلسلے کی پہلی فلم 2003ء میں ریلیز ہوئی اور آخری فلم 2017ء میں ریلیز ہوئی۔ سیریز کا کُل دورانیہ 726 منٹ بنتا ہے۔ پائریٹس آف دا کیریبین سیریز کا کُل بجٹ ایک اعشاریہ 274 ارب ڈالر جبکہ اس سیریز نے اپنے بنانے والوں کو 4 ارب 52 کروڑ 43 لاکھ 58 ہزار 182 ڈالر کما کردیے۔
ٹھگز آف ہندوستان سے قبل پائریٹس آف دا کریبین کی بابت بتانے کی وجہ یہ ہے کہ فلم ٹھگز آف ہندوستان، اسی فلم کا ہوبہو چربہ بنانے کی سعی کی گئی ہے اور فلم میکرز کا دعویٰ تھا کہ ہماری فلم ہولی وڈ کی پائریٹس آف دا کریبین کا جواب ہے۔
یش راج فلمز کے بینر تلے بننے والی اس میگا بجٹ فلم میں جہاں امیتابھ بچن، عامر خان اور کترینہ کیف جیسے بڑے اسٹار اپنے جلوے بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں، وہیں ہدایت کار ’وجے کرشنا اچاریہ‘ سے بھی فلم ٹریڈ کو بہت امیدیں وابستہ تھیں، جن کے کریڈٹ پر دھوم ون اور ٹو کے مکالمے اور دھوم تھری کے مکالمے و ہدایت کاری شامل ہے۔ یاد رہے کہ وجے کرشنا دھوم تھری کی شکل میں پہلے ہی 300 کروڑ کی فلم بولی وڈ انڈسٹری کو دے چکے ہیں اور خیال تھا کہ وہ شاید اس مرتبہ اپنا ریکارڈ مزید بہتر بنادیں گے۔
ٹھگز آف ہندوستان کو ایک سطر میں اگر سمویا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ، ’یش راج فلمز نے اس فلم کے ذریعے سے فلم بینوں سے پیسے ٹھگنے کی کوشش کی ہے‘۔ فلم میں کہانی، اسکرین پلے اور مکالموں کے نام پر آپ کو صرف اور صرف مایوسی ہی دیکھنے کو ملے گی۔ عامر خان جیسے پرفیکشنسٹ جن کی بابت مشہور ہے کہ وہ جس فلم میں کام کرتے ہیں اس کے ہر شعبے میں مداخلت کرتے ہیں، انہوں نے کیسے اس فلم کو ریلیز ہونے دیا، سمجھ سے باہر ہے۔
2 گھنٹے اور 44 منٹ کی اس فلم میں سے نصف گھنٹے کی فلم کو نہایت سکون سے اڑایا جاسکتا ہے اور اس سے فلم کی کہانی پر رتی بھر فرق نہیں پڑتا۔ غیر ضروری طویل مناظر کی بھرمار ہے جس میں انتہائی سطحی مکالمے ہیں اور عامر خان اور امیتابھ بچن جیسے بڑے اداکار بھی آپ کو جمائیاں لینے سے نہیں روک پاتے۔
وجے کرشنا اچاریہ نے پہلی بار امیتابھ بچن اور عامر خان کو ایک ساتھ کاسٹ کیا اور اتنی بودی فلم بنادی کہ آپ فلم کے اختتام پر سوچنے لگ جاتے ہیں کہ آیا فلم ریلیز سے قبل فلم کی اسٹار کاسٹ کو دکھائی بھی گئی تھی اور کیا پروڈیوسر آدیتیا چوپڑا جو خود ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ جیسی شاہکار فلم تخلیق کرچکے ہیں، انہوں نے بھی اس فلم کو دیکھا ہوگا؟ اگر دیکھا ہے تو کیسے وہ پونے 3 گھنٹے کی اتنی بور فلم کو بنا قطع و برید کے فلم بینوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔
اداکاری کے شعبے میں فاطمہ ثنا شیخ کی اداکاری متاثرکن ہے۔ امیتابھ بچن ہمیشہ کی طرح اپنے کردار سے انصاف کرتے دکھائی دیتے ہیں، ان کی انرجی قابلِ ستائش ہے مگر اسکرین پلے میں اتنے جھول ہیں کہ کئی بار فلم دیکھتے ہوئے آپ کو لگتا ہے کہ شاید ہدایت کار امیتابھ بچن کو بھول گئے ہیں کیونکہ کافی وقت ہوگیا ان کا کوئی سین ہی نہیں آیا۔
کترینہ کیف 2 مرتبہ دکھائی دیتی ہیں اور وہ اپنا ناچ گانا دکھانے کے بعد روپوش ہوجاتی ہیں۔ ثریا والے آئیٹم نمبر میں انہوں نے جس طرح کا جذبات برانگیختہ کردینے والا رقص پیش کیا ہے، وہ سنیما کی کم پڑھی لکھی آڈیئنس کو تو وقتی طور پر بھا جائے گا مگر 300 کروڑ کے کثیر سرمائے سے بنائی جانے والی فلم کی لاگت پورا کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتا۔
فلم کا سب سے بڑا سیٹ بیک عامر خان ہیں۔ عامر خان اس فلم میں کیپٹن جیک اسپیرو کا کردار ادا کررہے ہیں جو جونی ڈیپ بہت مہارت سے پائیریٹس آف دا کیریبین سیریز میں نبھا چکے ہیں۔ آپ جب عامر خان کی اداکاری کا موازنہ جونی ڈیپ سے کرتے ہیں تو آپ کو مایوسی ہوتی ہے کیونکہ عامر خان بولی وڈ کے مسٹر پرفیکشنسٹ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ اپنی ہر فلم کے ہر کردار پر بہت محنت کرتے ہیں مگر دنگل فلم کے لیے اپنی توانائیاں صرف کردینے والے عامر خان آپ کو ٹھگز آف ہندوستان میں جزوی ہی متاثر کرپاتے ہیں۔
فلم کے موضوع کی مناسبت سے ہدایت کار کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ فلم میں صرف 2 عدد انگریز ہیں جو بے چارے بعض مناظر میں خود ہندوستانیوں کے غلام دکھائی دیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ اس فلم کے لیے مرکزی ولن کے کردار کے لیے کوئی ہولی وڈ سے اچھا اداکار لیا جاتا اور کردار کو بھی بہت زیادہ بہتر بنایا جاتا۔ فلم کے دیگر معاون اداکاروں میں سے بھی کوئی اداکار آپ کو خاطر خواہ متاثر نہیں کرپاتا کیونکہ کسی کے کردار میں اتنا مارجن ہی نہیں کہ وہ اپنے جوہر دکھا سکے۔
فلم کی موسیقی اجے اور اتل نے دی ہے جبکہ بیک گراونڈ میوزک امیتابھ بھٹا چاریہ کا ہے۔ موسیقی اور بیک گراونڈ میوزک دونوں اوسط ہیں۔ سوائے ثریا آئیٹم نمبر کے آپ کو کوئی گانا متاثر نہیں کرپاتا۔ ثریا بھی آپ کو اس کی دھن سے زیادہ اس کی عکاسی اور کترینا کیف کے ہوشربا ڈانس کی وجہ سے بھاتا ہے۔
فلم کے ایکشن مناظر میں سے ایک منظر ایسا نہیں ہے جو آپ کو متاثر کرے۔ کترینا کیف ہو، فاطمہ ثنا شیخ یا دیگر خواتین معاون اداکارائیں، ان کے کردار نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پونے 3 گھنٹے کی اس فلم کو اگر صرف نصف گھنٹے ایڈٹ کردیا جاتا تو پھر بھی یہ فلم شاید فلم بینوں کو ہضم ہوجاتی، مگر کمزور اسکرپٹ اور قطعی بے جان ایکشن مناظر کی عکس بندی کے باعث اتنی طویل فلم دیکھنا اپنے آپ میں ایک مشکل کام ہے باوجود اس کے کہ آپ پردہ اسکرین پر امیتابھ بچن اور عامر خان جیسے بڑے اداکاروں کو ایک دوسرے کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
وجے کرشنا اچاریہ کو ٹھگز آف ہندوستان کے ذریعے 2 بڑے اداکاروں سے کام لیتے ہوئے تاریخ رقم کرنے کا موقع ملا تھا مگر انہوں نے 3 سو کروڑ روپے کی لاگت سے گزشتہ 10 برس کی سب سے غیر متاثر کن فلم بناکر ایک بار پھر بولی وڈ کو پیغام دے دیا ہے کہ اگر فلم کا اسکرپٹ عامیانہ ہے، اس پر محنت نہیں کی گئی تو اسٹار کاسٹ، خوبصورت سی جی آئی ایفیکیٹس اور امیتابھ بچن، عامر خان اور کترینہ کیف جیسے بڑے اداکار بھی فلم کو سال کی سب سے بڑی فلاپ بننے سے نہیں بچاسکتے۔
اکیرا کورو ساوا مشہور جاپانی ہدایت کار اور اسکرین رائٹر ہیں، انہوں نے اپنے 57 سالہ فلم کیریئر میں 30 سے زائد فلمیں بنائیں اور ان کی ہر فلم ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ سیون سمورائی ان کی وہ فلم ہے جسے آج بھی دنیا بھر کے فلم اسکولز میں بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’اچھے اسکرپٹ کے ساتھ ایک اچھا ڈائریکٹر ایک ماسٹر پیس تخلیق کرسکتا ہے اور اسی اسکرپٹ کے ساتھ ایک اوسط درجے کا ڈائریکٹر بھی ایک مناسب سی فلم بنالے گا، البتہ ایک بے کار اسکرپٹ کے ساتھ ایک اچھا ڈائریکٹر بھی ممکنہ طور پر ایک اچھی فلم تخلیق نہیں کرسکے گا۔‘
کاش وجے کرشنا اچاریہ کو کوئی اکیرا کورو ساوا کا یہ قول سنا دیتا جب وہ ٹھگز آف ہندوستان بنا رہے تھے۔