امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔
امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق امریکا کی جانب سے یہ نتیجہ ایک دن پہلے سعودی پراسیکیوٹر کے بیان سے براہ راست متصادم ہے، جس میں انہوں نے اس سفاکانہ قتل میں سعودی شہزادے کے ملوث ہونے کو مسترد کیا تھا۔
تاہم امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ 15 سعودی ایجنٹ سعودی طیارے کے ذریعے استنبول آئے اور سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کو قتل کیا۔
تاہم فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سی آئی اے نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
دوسری جانب سعودی عرب نے رپورٹ میں بتائی گئی سی آئی کی تحقیقات کو فوری طور پر مسترد کی جبکہ اس سے قبل بھی 2 اکتوبر کو ہونے والے اس قتل پر وہ کئی مرتبہ اپنا سرکاری موقف تبدیل کرچکا ہے۔
سعودی عرب نے پہلے جمال خاشقجی کے بارے میں کسی بھی طرح کی معلومات سے انکار کیا تھا جبکہ بعد میں کہا تھا کہ لڑائی کے دوران انہیں قتل کردیا گیا۔
تاہم سعودی پراسیکیوٹر نے حالیہ نقطہ نظر یہ پیش کیا تھا کہ جمال خاشقجی کو ’قائل کرکے‘ استنبول سے واپس لانے کے لیے 15 رکنی اسکوائڈ قائم کیا گیا تھا لیکن یہ معاملہ صحافی کے قتل اور ’خطرناک‘ آپریشن کے ذریعے ان کے جسم کے ٹکرے کرنے پر ختم ہوا۔
واشنگٹن پوسٹ نے بتایا کہ سی آئی اے نے مختلف خفیہ ذرائع کا جائزہ لیا، جس میں امریکا کے لیے سعودی سفیر اور ولی عہد کے بھائی خالد بن سلمان اور جمال خاشقجی کے درمیان کی فون کال بھی شامل ہے۔
اس کال میں خالد بن سلمان نے مقتول صحافی کو بتایا تھا کہ وہ استنبول میں قونصل خانے جار مطلوب دستاویزات حاصل کرلیں اور وہ وہاں محفوظ رہیں گے۔
ادھر سعودی سفارتخانے کے ترجمان محمد کا کہنا تھا کہ خالد بن سلمان نے کبھی جمال خاشقجی سے’ترکی جانے سے متعلق کوئی بات نہیں کی‘۔
اس حوالے سے سفارتکار نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ٹوئٹ کیا گیا کہ ’ خالد بن سلمان نے جمال خاشقجی سے کبھی کوئی ٹیلی فونک گفتگو نہیں کی‘ اور ’واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کیا گیا دعویٰ جھوٹا ہے‘۔
علاوہ ازیں امریکی انٹیلی جنس ایجنسی نے سعودی شہزادے کے کردار کا تعین کرتے ہوئے انہیں سعودی عرب میں ’حقیقی حکمران‘ تصور کیا۔
تاہم واشنگٹن پوسٹ نے عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ محمد بن سلمان کو آگاہ یا ملوث کیے بغیر اس واقعے کے ہونے کا کوئی راستہ نہیں‘۔
عہدیدار کی جانب سے کہا گیا کہ محمد بن سلمان ایک ’اچھا ٹیکنوکریٹ‘ ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں ایسا شخص قرار دیا جو غیر متوقع فیصلے کرتا ہے، بغیر یہ سوچے سمجھے کہ کچھ چیزیں آپ نہیں کرسکتے۔
ادھر نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ سی آئی اے کی تحقیقات قاتل ٹیم کی کالز کی بھی بنیاد پر ہیں لیکن ساتھ ہی اخبار نے یہ بھی لکھا کہ محمد بن سلمان جمال خاشقجی کو واپس لانے پر آمادہ کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے کالز کے درمیان سعودی صحافی کے قتل کی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا۔
نیویارک ٹائمز نے عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک امریکی اور ترکی کی انٹیلی جینس کو جمال خاشقجی کے قتل میں براہ راست سعودی ولی عہد کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے۔
اس کے باوجود سی آئی اے کی تحقیقات واشنگٹن اور اہم اتحادی ریاض کے درمیان تعلقات میں تلخی کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ سعودی عرب نے اس معاملے پر بات چیت ختم کرکے بین الاقوامی معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔
سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔
تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔
صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔
تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔
سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔
تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔
اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔
17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔
اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔
بعد ازاں سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے ‘قربانی کا کوئی بکرا’ ڈھونڈ ہی لیں گے۔
دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔