تہران کے آزادی سٹیڈیم میں ایشین چیمییئن لیگ کے فائنل میچ میں خواتین شائقین کی شرکت کے بعد ایران میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا یہ ایک نئی شروعات ہیں یا پھر بس فٹ بال دیکھنے والی اعلی شخصیات کو متاثر کرنے کے لیے ہے۔
اس روز وہاں سٹیڈیم میں کل آٹھ ہزار افراد میں 500 سے ہزار خواتین موجود تھیں۔ پرسیپولیز اور جاپان کے خاشیمہ اینٹلرز کے درمیان ٹائی کے بعد بالآخر پرسیپولیز دو صفر سے مقابلہ ہار گئی تھی۔
فیفا کا کہنا ہے کہ یہ ایک ہم لمحہ ہے۔ سنہ 1981 کے بعد خواتین کو ایران کے فٹ بال گراؤنڈز میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔
لیکن ان گراؤنڈ کو عورتوں کے لیے کھلوانے کے لیے مہم چلانے والے گروہ کا کہنا ہے کہ یہ ’پی آر ایکسرسائز‘ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
لیکن کھیل کے مقابلے دیکھنے کی دلدادہ خواتین کے لیے دنیا بھر میں کیا سہولیات ہیں۔
ایران
یہ سوال بھی کیا گیا کہ عورتوں کے لیے ٹکٹ کی سہولت کتنی تھی
خواتین کے لیے ایران کے گراؤنڈز میں رسائی ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ سنہ 2006 میں ایک دستاویزی فلم یہ مسئلہ تفصیل سے بتایا گیا خواتین نے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے کتنی کوشش کی۔
ملک سے باہر ہونے والے ایک مقابلے میں خواتین کو اپنی ٹیم کو دیکھنے کا موقع ملا لیکن اپنے ہی ملک کے اندر موجود پابندیوں نے انھیں مایوسی میں مبتلا رکھا۔
اور رپورٹس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ ایشین چیمپیئین لیگ کے فائنل کو دیکھنے کے لیے ایک منتخب گروہ ایک خاص علاقے سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے موجود تھا۔
مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ خواتین کو ٹکٹ لینے کی اجازت نہیں تھی۔
ایشیئن فٹ بال کنفڈریشن کے سربراہ شیخ سلمان بن خلیفہ جنھوں نے اس دن کا کھیل میدان میں براہ راست دیکھا بھی تھا کہتے ہیں کہ ایشیا میں فٹ بال ہمیشہ شامل ہوتا ہے اور اے ایف سی بلا تخصیص رنگ، ذات اور عقیدے کے اپنے حامیوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔
انھوں نے معاشرے کے مختلف افراد کی جانب سے اس غیر معمولی موقع پر شریک ہونے کو یقینی بنانے کے لیے حکام کا شکریہ ادا کیا۔
سارہ (یہ ان کا اصل نام نہیں) نے اوپن سٹیڈیم سے بی بی سی کو بتایا کہ میچ دکھایا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ فیفا اور اے ایف سی کا میچ دیکھیں تو وہ ایک دوسرے کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ ایران کا شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ انھوں نے اپنی خواتین کو سٹیڈیم میں جانے کی اجازت دی۔
لیکن یہ عورتوں کو اجازت دینے کی بات نہیں۔ یہ ایک جرم ہے۔ اگر آپ سوشل میڈیا پر دیکھیں تو بہت سے لوگ بتائیں گے کہ وہ یہ میچ دیکھنے جانا چاہتے تھے لیکن اندر جا نہیں پائے۔
جو لوگ اندر موجود تھے ان کا کھلاڑیوں کے ساتھ کوئی تعلق تھا یا پھر وہ پولیس کے ساتھ تھے۔ یہ ناانصافی ہے۔‘
سعودی عرب
رواں برس جنوری میں پہلا موقع تھا جب خواتین کو فٹ بال میچ دیکھنے کی اجازت دی گئی۔
اس اقدام کا مقصد سعودی عرب میں مردوں اور عورتوں کے میل جول کے حوالے سے موجود سخت قوانین کو نرم کرنا تھا۔
ایک 18 سالہ لڑکی سارہ القشاگری جنھوں نے جدہ میں ال اہلی اور الباطن کے درمیان کھیلے جانے والے اس میچ کے انعقاد کی کوشش کی تھی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک بہت زبردست تجربہ تھا۔
’یہ خواتین کا وہ مطالبہ تھا جو پورا کر دیا گیا۔ ہم سٹیڈیم میں داخل ہونا چاہتے تھے اور ہم ایسا کر پائے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں فٹ بال کی بہت مداح ہوں۔ میں یہ کھیلنا اور دیکھنا پسند کرتی ہوں۔ لیکن میں کبھی میچ دیکھنے نہیں جا پائی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں وہاں گئی۔ بطور سعودی خاتون میرے لیے یہ میچ سے زیادہ تھا۔‘
کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار روس میں سعودی مداحوں نے ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ کے دوران کیا جو سعودی ٹیم پانچ کے مقابلے میں صفر گول سے ہار گئی تھی۔
انگلینڈ
زیاد تر خواتین مردوں کی طرح انھیں ٹیمز کو پسند کرتی ہیں جن کو ان کے والدین کرتے تھے
سنہ 2015 میں انگلینڈ میں فٹ بال کی خواتین شائقینوں کے بارے میں ایک تفصیلی تجزیہ ’کک اٹ آؤٹ‘ کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔
اس میں بتایا گیا کہ پریمیئر لیگ کے مداحوں میں خواتین کی تعداد ایک چوتھائی ہے۔
نوجوان لڑکیاں بالکل لڑکوں کی طرح ہی اپنے والدین کی من پسند ٹیموں کے میچ دیکھنے جاتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 65 فیصد لڑکیاں جو پہلی بار میچ دیکھ رہی تھیں وہ اپنے والدین یا خاندان کے کسی فرد کے ہمراہ تھیں اور جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ فلاں ٹیم کو کیوں سپورٹ کر رہی ہیں تو ان میں سے 60 فیصد نے اپنے خاندان کی جانب اشارہ کیا۔
سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ خواتین محسوس کرتی ہیں کہ انھیں اپنے آپ کو ثابت کرنا پڑتا ہے ایک شائق کے طور پر کیونکہ ایسے ہی ان کی پسند نا پسند کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔
جواب دینے والوں میں سے ایک کے مطابق جنسیت کے بارے میں زبانی کلامی بات کیا جانا ایک معمول ہے۔ لیکن آٹھ اعشاریہ پانچ فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں ان چاہی توجہ دی جاتی ہے جیسے کہ میچ کے دوران ان کے جسم کو چھوا جانا۔
چین
چینی سپر لیگ بھی خواتین میں مقبول ہوتی جا رہی ہے
چائنیز سپر لیگ نے سنہ 2016 سے دنیا کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو بیجنگ اور اس سے بھی آگے تک اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔
چین میں خواتین مداحوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
سوشل میڈیا پر 30 فیصد سے زیادہ خواتین مداح ہیں۔
21ویں صدی میں فٹ بال کے مداحوں کی تعداد وہاں بڑھی ہے اور اب حال ہی میں وہاں ایک بچہ پیدا کرنے کے حوالے سے پالیسی کی تبدیلی کے بعد ایک والد اپنا یہ شوق اپنی بیٹی میں بھی اسی طرح منتقل کر سکتے ہیں جیسے کہ وہ بیٹے میں کرتے ہیں۔
جرمنی
جرمنی کے کلبز میں خواتین مداحوں کی تعداد ہر جگہ سے زیادہ نظر آتی ہے
یورپین لیگ میں جرمن فٹ بال کے مداحوں میں خواتین کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان میں ایک چوتھائی تعداد خواتین ہے۔
وہاں خواتین اس کا اہم حصہ ہوتی ہیں۔
یوں وہاں میچ کے دن دائیں بازو کے حامی سخت گیر نظریات کے حامیوں کو پیچھے دھکیلنے میں مدد ملتی ہے۔
امریکہ
امریکہ میں مردوں کی نسبت خواتین کی ایک بڑی تعداد فٹ بال دیکھنا پسند کرتی ہے
امریکہ میں فٹ بال مردوں کے لیے روایتی کھیل نہیں۔ تاہم گذشتہ 20 سالوں میں یہ بڑھا ہے خاص کر جب سے خواتین نے سنہ 2015 میں تیسرے ورلڈ کپ میں کامیابی حاصل کی۔
تاہم خواتین کو کم تنخواہ ملتی ہے۔
مارچ سنہ 2016 میں پانچ سینئر کھلاڑیوں نے نیشنل فیڈریشن کی جانب سے دیے جانے والے معاوضے کو امتیازی قرار دیا تھا۔
قومی ٹیم کی گول کیپر سولو پرامید ہیں کہ شائقین کی بڑھتی ہوئی تعداد ان کے حق میں جائے گی۔