پاکستان کے کراچی میں 23 نومبرکو جب چینی سفارت خانے پردہشت گردوں نے حملہ کیا تب ایک خاتون کمانڈوز نے سہائی عزیزتالپورنے جس طرح بہادری کی مثال پیش کی، ا س سے وہ پورے پاکستان میں سرخیوں میں آگئی۔ اس کے ساتھ ہی وہاں کی خواتین کا ایک مضبوط چہرہ بھی ابھرکرسامنے آیا۔
یہاں پرخواتین کمانڈوزکی تعداد تیزی سے بڑھی ہے، جوزبردست طریقے سے جانبازثابت ہورہی ہے۔ یہ خواتین کمانڈوزپاکستان کے سب سے خطرناک تسلیم کئے جانے والےعلاقے خیبرپختونخوا میں اپنے مشن پرہیں۔
وائس آف امریکہ کے اردوڈویژن کے مطابق اس سال تقریباً 600 خواتین کمانڈوزکی پنجاب پولیس میں تقرری ہوئی ہے۔ خیبرپختونخوا کے نوشیرا میں ان کی سخت ٹریننگ ہوئی، جس میں مشکل حالات کا سامنا کرنے سے لے کرہتھیاراورگرینیڈ چلانے کی ٹریننگ دی گئی۔ ان میں سے بہت سی خواتین ان گھروں سے آتی ہیں، جہاں پرعورتوں کا باہرنکلنا تو دور کی بات، انہیں تعلیم تک نہیں دلوائی جاتی۔
کمانڈوفورس میں شامل ہورہی خواتین میں خیبرپختونخوا کی رہنے والی بھی کم نہیں۔ پاکستان کو افغانستان سے متصل کرنے والا یہ علاقہ انتہاپسندوں کے لئے جنت کی طرح ہے۔ خاص کر سال 2004 سے طالبان اس پرقبضہ کرنے کے لئے اسے اپنا گڑھ بنائے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی سے پریشان لوگوں میں خواتین بھی شامل ہیں، جومسلسل دہشت گردی مخالف دستے (اے ٹی ایس) سے منسلک ہورہی ہیں۔
پنجاب رینجرمیں بھی خواتین شامل ہورہی ہیں، جو خاص طورپرامن بنائے رکھنے کے لئے آپریشن میں مصروف رہتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کسی بھی طرح قدرتی اورقومی آفات کے وقت بھی سب سے آگے رہ کرکام کرتی ہیں۔
پاکستان میں خواتین کے فورسیزسے منسلک ہونے کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہاں کے ہیومن رائٹس کمیشن (حقوق انسانی کمیشن) کے سال 2010 میں جاری ڈیٹا کے مطابق سب سے پہلے 1939 میں سات خاتون کانسٹیبلوں نے پاکستان کے پنجاب صوبہ میں چل رہی مہم میں شرکت کی تھی۔ اس کے بعد 1952 میں یہ تعداد 25 سے زائد ہوگئی۔
سال 1994 میں اس وقت کی وزیراعظم بے نظیربھٹوکی کوششوں سے راولپنڈی میں پہلا خاتون پولیس اسٹیشن بنا، جہاں سے یہ پشاور، کراچی اورلرکانہ اورپھرپورے ملک میں پھیل گیا۔ حالانکہ دہشت گردی مخالف دستے میں خواتین کی تقرری بہت بعد میں نومبر2014 سے ہونی شروع ہوئی، تب سے سلسلہ جاری ہوگیا۔
دہشت گردی مخالف دستے کے لئے خواتین کی ٹریننگ کسی بھی طریقے سے مردوں سے مختلف نہیں ہوتی ہے۔ رائفل چلانے سے لے کرگرینیڈ چلانے اورخطرناک علاقوں میں دہشت گردوں کی سازشوں کوناکام بناتے ہوئےآگے بڑھنے کی انہیں ٹریننگ ملتی ہے۔ دہشت گردانہ حملوں، کسی قدرتی آفات میں یہی دستہ سب سے پہلے سامنے آتا ہے، یعنی حالات پرقابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔
پاکستان میں خواتین دہشت گردی مخالف دستے کی موٹولائن ہے “ہمارا احترام کریں، ہم سے ڈریں”۔ (رسپکٹ اس، فیئراس)۔ یہ پڑوسی ملک میں عورتوں کی حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی ظاہرکرتا ہے کہ شبیہ کو ٹھیک کرنے کے لئےوہ کتنی کوششیں کررہا ہے۔