لکھنؤ: اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے مدھیہ پردیش کے بھوپال کے ایک انتخابی ریلی میں کہے گئے اس جملے ’کانگریس علی کواپنے پاس رکھے، ہمارے پاس بجرنگ بلی کافی ہیں۔ ‘سے ملک کے مسلمانوں میں سخت غم وغصے کی لہر ہے۔علما اورمذہبی رہنمائوں کے علاوہ سماج کے دیگر حلقوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ افراد نے اس بیان پر سخت ردعمل ظاہرکرتے ہوئے وزیراعلیٰ سے اپنابیان واپس لینے کا مطالبہ کیاہے۔
– اسدالدین اویسی
مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ ورکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے کہاکہ وزیراعلیٰ کابیان آئین کی دھجیاں اڑانے والاہے اورآئینی عہدے پر بیٹھے شخص کے اس بیان کی پرزورمذمت کی جانی چاہئے۔
جبکہ بی جے پی سے وابستہ مسلم رہنمائوں نے براہ راست اس معاملے پر بولنے سے پرہیز کیامگر دبے لہجے میں کہاکہ سیاسی بیانات میں مذہبی ہستیوں کو لانامناسب نہیں ہے۔ایم آئی ایم کے صدراویسی نے تلنگانہ میں انتخٓابی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بیان پر سخت ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ ان کابیان آئین کی دھجیاں اڑانے والاہے۔انہوں نے کہاکہ یوگی کے بیان پر اب تک کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی تبصرہ نہیں کیاہے جوقابل افسوس ہے۔مسٹراویسی نے کہاکہ کوئی اگرحدپارکرے گا توٹوکنا ضروری ہے۔
انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہاکہ کیا کوئی شخص ملک کے آئین کا حلف پانے کے بعدایسابیان دے سکتاہے؟کیاوزیراعلیٰ کو اجازت ہے کہ وہ اس طرح کے بیان دیں؟کیاملک میں علی کوماننے کی اجازت نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ حضرت علی کو جاننے اورپہچاننے کیلئے انہیں پڑھناپڑے گا۔
مولاناکلب جواد نقوی نے وزیر اعلیٰ کے بیان کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میر ا مطالبہ ہے کہ حضر ت علی پر اپنے بیان کی وضاحت جاری کرنا چاہئے۔انہوںنے بیان پر نااتفاقی ظاہر کی ہے۔
– مولاناکلب جوادنقوی
سیاسی اسٹیج سے مذہبی ہستیوں کا اس طرح نام لینا درست نہیں ہے ۔ حضرت علی کااحترام نہ صرف اہل اسلام بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی کرتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ کو اپنے بیان معافی مانگناچاہئے۔
– مولاناسلمان ندوی
–
انتخاب کے موقع پرمذہبی باتوں سے گریز کرناچاہئے مذہب کامعاملہ لوگوں کے جذبات سے وابستہ ہوتاہے مذہبی ہستیوں کا اس طرح کا تذکرہ ناقابل قبول ہے۔ وزیراعلیٰ کو اپنے بیان پر وضاحت دیناچاہئے۔
– مولاناخالد رشید
حضرت علی کو نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میںعقیدت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے وزیر اعلیٰ کا بیان قابل مذمت ہے انہیں اپنے بیان پر معافی مانگنے کامیں مطالبہ کرتاہوں۔
– مولانااحمد بخاری
وزیراعلیٰ کامنصب ایک آئینی اور اہم عہدہ ہے ایسے اہم منصب پر فائز شخص کوایسے الفاظ سےبچنا چاہئے ۔پی ایم ہوں یاسی ایم یادیگر آئینی عہدے پر فائز لوگوں کو ایسے جملوں کا استعمال نہیں کرناچاہئے جس سے جذبات مجروح ہوں۔
– مہنت دیویاگری
وزیراعلیٰ کے بیان سے میں متفق نہیں ہوں اس طرح کے بیان مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں ہم سیکولر ریاست میں رہتے ہیں وزیراعلیٰ کومذہبی رواداری کو فروغ دیناچاہئے نہ کہ ایسے بیان جس سے جذبا ت کو ٹھیس پہنچے۔
– راجیندرسنگھ بگا
ڈایوسس آف لکھنؤ کے ترجمان نے بیان کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعلیٰ کو مذہبی رواداری کی بات کرناچاہئے نہ کہ جذبا ت کو ٹھیس پہنچانے والے اشتعال انگیز بیان دیناچاہئے۔
– فادرڈونالڈ ڈیسوزا
یوپی شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین نے سی ایم کے بیان پر تبصرہ کرنے سے بچتے ہوئے کہاکہ سیاسی پلیٹ فارم سے مذہبی ہستیوں کو باہر رکھناچاہئے۔رہنمائوں کو اپنے بیانوں میں ایسی باتوں سے گریز کرناچاہئے۔
– وسیم رضوی
ریاستی وزیرمملکت برائے اقلیتی بہبود وحج محسن رضا سے رابطہ کرنے کی کافی کوشش کی گئی مگر انہوں نے فون نہیں اٹھایا واٹس اپ پربھیجے گئے پیغام کابھی کوئی جواب انہوں نے نہیں دیا۔
– محسن رضا
بی جےپی کے ایم ایل سی بقل نواب نے براہ راست کچھ بھی کہنے سے انکار کیا مگر انہوں نے اتنا ضرور کہا کہ مذہبی عقیدت کے ساتھ کھلواڑ برداشت نہیں ہے۔ البتہ مزید کچھ نہیں بولوں گا۔
– بقل نواب
**********
منکامیشورمندر کی مہنت دویاگری نے کہاکہ وزیراعلیٰ کاعہدہ ایک آئینی اوراہم عہدہ ہوتاہے ایسے اہم ترین عہدے پربیٹھنے والے شخص کو اس طرح کے جملوں سے پرہیز کرناچاہئے۔
وزیراعظم ہوں یا وزیراعلیٰ یاکسی دیگر آئینی عہدے پر فائز لوگوں کو ایسے الفاظ کا استعمال نہیں کرناچاہئے جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہوں۔مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری اورامام جمعہ مولاناکلب جواد نقوی نے وزیراعلیٰ کے بیان کی سخت مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ حضرت علی کے بارے میں انہوں نے جو بیان دیاہے اس پر انہیں وضاحت نامہ جاری کرناچاہئے۔وہیں آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانایعسوب عباس نے وزیراعلیٰ سے ان کے بیان کے لئے مسلمانوں سے معافی مانگنے کامطالبہ کیاہے ۔شیعہ چاند کمیٹی کے صدرمولاناسیف عباس نقوی نے وزیراعلیٰ کے بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہاکہ سیاسی ریلی میں اہلبیت کانام لیناقابل افسوس ہے۔حضرت علی سے صرف شیعہ طبقے کاہی نہیں بلکہ عام مسلمانوں اوردوسرے مذاہب کااحترام کرنے والے برادران وطن کی بھی کافی عقیدت وابستہ ہے۔مولانا نے وزیراعلیٰ سے اپنابیان واپس لینے کامطالبہ کرتےہوئے کہاکہ مستقبل میں کسی بھی سیاسی ریلی میں اہل بیت کا نام نہیں لیاجاناچاہئے۔ ایشیاکی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماکے سینئر استادمولاناسید سلمان حسینی ندوی نے وزیراعلیٰ کے بیان کی پرزورمذمت کرتے ہوئے کہاکہ سیاسی جلسوں سے مذہبی شخصیتوں کا اس طرح نام لینا درست نہیں ہے۔
انہوں نےکہاکہ حضرت علی کا احترام نہ صرف اہل اسلام بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی کرتے ہیں۔وزیراعلیٰ کو اپنابیان واپس لیتے ہوئے اس کیلئے معافی مانگناچاہئے۔جبکہ دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام مولانا احمدبخاری نے وزیراعلیٰ کے بیان پر تیکھاردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ حضرت علی کو نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انہوں نے یوگی کےبیان کی پرزورمذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ وزیراعلیٰ کو اپنے اس بیان پر معافی مانگناچاہئے۔عیش باغ عیدگاہ کےا مام اورآل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولاناخالد رشیدفرنگی محلی نے بھی وزیراعلیٰ کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ سیاسی جماعتوں کو اس بات کاخیال رکھناچاہئے کہ انتخاب کے وقت مذہبی باتوں سے گریز کریں مذہب کا معاملہ انتہائی حساس اورلوگوں کے جذبات سے وابستہ ہوتاہے۔انہوں نے کہاکہ اسلام کی عظیم ہستیوں کا اس طرح سے ذکرکرناناقابل قبول ہے۔وزیراعلیٰ کو اپنے بیان پروضاحت پیش کرناچاہئے۔
اترپردیش شیعہ سینٹرل بورڈ کے چیئرمین ومتنازعہ بیانوں کے سبب سرخیوں میں رہنے والے وسیم رضوی نے وزیراعلیٰ کے بیان پر براہ راست تبصرہ کرنے کے بجائے کہاکہ سیاسی پلیٹ فارم سے مذہبی ہستیوں کو دوررکھناچاہئے۔سیاسی رہنمائوں کو اپنے بیانوں میں ایسے جملوں اورباتوں سے بچناچاہئے۔وہیں ریاستی وزیربرائے اقلیتی بہبود وحج محسن رضا سے اس معاملے میں رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔واٹس اپ پربھیجے گئے پیغام پر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔جبکہ بی جےپی کے ایم ایل سی بقل نواب نےبراہ راست کچھ بھی کہنے سے انکارکردیا۔البتہ انہوں نے اتنی صفائی دی کہ مذہبی عقیدت کے ساتھ کھلواڑ ناقابل قبول ہے۔مگر اس معاملے پروہ کچھ اورنہیں کہناچاہیں گے۔گرودوارہ مینیجنگ کمیٹی کے سربراہ راجیندرسنگھ بگانے بھی وزیراعلیٰ کے بیان پر اپناعدم اتفاق ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ ایسے بیان مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں ہم سیکولر ریاست میں رہتےہیں وزیراعلیٰ کو ہر مذہب کے احترام کے جذبے کے ساتھ بڑھناچاہئے اوراس کو فروغ دیناچاہئےنہ کہ اس طرح کے بیان جس سے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔دوسری طرف ریاستی راجدھانی کے عیسائی فرقے کی اہم شخصیت ڈایوسس آف لکھنؤ کے ترجمان فادرگنارڈڈیسوزانے بھی وزیراعلیٰ کے بیان کی پرزورمذمت کرتےہوئے کہاکہ انہیں مذہبی رواداری کی بات کرناچاہئے نہ کہ جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے بیان۔وہیں بی جےپی اقلیتی مورچہ کے کئی عہدیداران نےسوشل میڈیا پر وزیراعلیٰ کے بیان پراپناتیکھاردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ پارٹی میں رہنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم حضرت علی کے بارے میں کوئی بھی بیان دلوادیں۔