ٹیلی کام آلات و مصنوعات بنانے والی چینی کمپنی ہواوے کو پاکستان میں کون نہیں جانتا۔ اس کے بنائے موبائل فون سے لے کر راؤٹرز اور ڈونگل تک ہر چیز یہاں نہ صرف دستیاب ہے بلکہ کافی مقبول بھی ہیں۔
ہر کچھ عرصے بعد ہواوے کا نیا سمارٹ فون پاکستان میں متعارف کروایا جاتا ہے۔ اس کے پاکستان میں مقبول ہونے کی ایک بڑی وجہ اس کی قیمت اور موبائل فونز میں دی جانے والی خصوصیات ہیں۔
اس کے علاوہ بعض اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تھری جی اور فور جی مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ بھی ہواوے کے پاس ہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں پاکستان جیسے ملک میں چینی کمپنی ہواوے اور اس کا ذیلی برانڈ آنر اتنا مقبول ہے اور ٹیلی کام مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ اس کے پاس ہے، وہیں ترقی پسند ممالک اس کمپنی سے خوفزدہ کیوں ہیں؟
نیوزی لینڈ کو ہی لے لیں جو حال ہی میں ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جس نے قومی سلامتی وجوہات کی بنا پر ہواوے کے بنائے ٹیلی کام آلات کے استعمال کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
نیوزی لینڈ کی ایک کمپنی اپنے فائیو جی موبائل نیٹ ورک کے لیے ہواوے کے آلات استعمال کرنا چاہتی تھی لیکن نیوزی لینڈ کی سرکاری سکیورٹی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
آخر ان ممالک کو خوف کیا ہے؟
یہ ممالک چینی ٹیکنالوجی کمپنی سے اس لیے محتاط ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ چین ہواوے جیسی کمپنیوں کو صنعتی راز اور دیگر خفیہ معلومات حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لیے مجبور کر سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ممالک کو چین کی جانب سے جاسوسی کے خطرات لاحق ہیں۔
آسٹریلیا سٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ میں انٹرنیشنل سائبر پالیسی سینٹر کے ٹام یورن کہتے ہیں کہ ’چینی حکومت کئی سالوں سے معلومات چوری کرنے کے مقاصد کا واضح مظاہرہ کر چکا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’چینی ریاست کئی سائبر اور دیگر جاسوسی اور انٹیلیکچوئل پراپرٹی کی چوری میں ملوث رہا ہے۔‘
ٹام یورن نے مزید کہا کہ ’کمپنیوں اور حکومت کے درمیان قریبی تعلق کی وجہ سے خدشات میں مزید اضافہ ہوا ہے کہ چین ریاست سے جڑی کمپنیوں کو خصوصی مراعات دے کر جاسوسی کے آپریشن کی کوشش کر سکتا ہے۔‘
ان خدشات میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب گذشتہ سال نئے قوانین متعارف کروائے گئے جن کے تحت چینی تنظیموں کو نیشنل انٹیلی جنس کوششوں میں مدد کا کہا گیا۔
جاسوسی کی تاریخ اور ان نئے قوانین کے امتزاج ہواوے اور زیڈ ٹی ای جیسی کمپنیوں کے استعمال کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اب کیوں؟
فائیو جی نیٹ ورک کئی ممالک میں بنا دیا گیا ہے اور اس سے موبائل انفراسٹرکچر میں ایک نئی اور اہم لہر آئے گی۔
ہواوے دنیا میں ٹیلی کمیونیکیشن آلات بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے، اور ٹیلی کام کمپنی سپارک نیوزی لینڈ اپنے فائیو جی نیٹ ورک کے لیے ہواوے کی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا منصوبہ رکھتی تھی۔
لیکن ہواوے کو دیگر ممالک کی جانب سے رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کو خطرہ ہے کہ ہواوے ان آلات کی آڑ میں جاسوسی کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔
سپارک نامی اس کمپنی کا کہنا ہے کہ ’نیوزی لینڈ کے گورنمنٹ کمیونیکیشنز سکیورٹی بیورو کے سربراہ نے کہا ہے کہ اگر یہ معاہدہ ہوتا ہے تو اس سے نیشنل سکیورٹی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔‘
انٹیلی جنس سروسز کے وزیر اینڈریو لٹل نے کہا ہے کہ سپارک ایجنسی کے ساتھ کام کر کے ان خطرات کو کم کر سکتی ہے۔
دوسرے ممالک کو کیا خدشات ہیں؟
اس سے قبل آسٹریلیا نے بھی ہواوے اور زیڈ ٹی ای کو نیشنل سکیورٹی بنیادوں پر ملک کو فائیو جی ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے روک دیا تھا۔
ہواوے نے آسٹریلوی حکومت کے اس کی پالیسیوں اور مصنوعات پر تبصرے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تبصرہ غلط معلومات اور حقائق سے ہٹ کر ہے۔‘
کمپنی نے اپنی آزادی کا دفاع کرتے ہوئے کہا: ’یہ ایک پرائیوٹ کمپنی ہے جس کے مالک اس کے ملازم ہیں اور کوئی شیئر ہولڈر نہیں۔‘
لیکن امریکہ اور برطانیہ نے بھی ہواوے پر خدشات کا اظہار کیا ہے اور کمپنی کو جرمنی، جاپان اور کوریا میں بھی شدید جانچ پڑتال کا سامنا ہے۔
گذشتہ ہفتے وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا تھا کہ امریکی حکومت موبائل کمپنیوں سے رابطہ کر رہی ہیں کہ وہ ہواوے کے آلات استعمال کرنے سے گریز کریں۔
ایسے میں پاکستان کے علاوہ بظاہر شاید ایک ہی ملک ہے جو ہواوے کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے اور وہ ہے پاپوا نیو گینی جس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے انٹرنیٹ انفراسٹرکچر کو قائم کرنے کے لیے ہواوے کے ساتھ معاہدہ کرے گا۔