پولینڈ میں ماحولیاتی کے بارے میں کانفرنس کے آغاز پر ماحولیاتی تپش کو روکنے کے لیے سرگرم چار سرکردہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ زمین ‘نازک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔’
ایک شاذ و نادر ہونے والے واقعے میں اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی ہونے والی کانفرنس میں چار سابق صدور نے موثر فیصلہ سازی پر زور دیا ہے۔
2015 میں ہونے والے پیرس معاہدے کے بعد سے پولینڈ کے شہر کاٹوویٹسا میں ہونے والا یہ اجلاس سب سے اہم ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا پیرس معاہدے میں طے پانے والے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے خطرناک گیسوں کے اخراج میں فوری کمی لانا ہو گی۔
اس اجلاس میں مختلف کیا ہے؟
اس سال اکتوبر میں ماحولیات کے عالمی ادارے آئی پی سی سی نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بڑھتے ہوئے عالمی درجۂ حرارت کو 1.5 سیلسیئس تک محدود رکھا جائے۔
آئی پی سی سی کے مطابق اس مقصد کے حصول کے لیے حکومتوں کو 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 45 فیصد تک کمی لانا ہو گی۔
تاہم ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گذشتہ چار سال سے گرنے کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ماحول پر اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں کے چار سابقہ صدور نے بیان جاری کیا ہے۔ اتوار کو ایسے ہی ایک بیان میں انھوں نے فوری اقدام کی تاکید کی ہے۔
کیا دنیا تاخیر کی متحمل ہو سکتی ہے؟
‘کاٹوویٹسا میں ہونے والے اجلاس میں عالمی رہنما جو فیصلہ کریں گے اس کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور اس سے پیرس معاہدے کے اہداف پورے کرنے میں مدد ملے گی۔
‘کسی بھی قسم کی تاخیر سے ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنا زیادہ مشکل اور زیادہ مہنگا ہو جائے گا۔’
یہ بیان فجی کے فرینک بینیمارمرا، مراکش کے صلاح الدین مزوار، فرانس کے لوراں فبیوس اور پرو کے مینوئل پلگر ویڈال نے جاری کیا۔
اسی دوران ملک جو کہتے ہیں اور جو کرتے ہیں اس کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔
غریب ملکوں کے گروپ کے سربراہ گیبرو جیمبر نے کہا: ‘آئی پی سی سی کی رپورٹ سے یہ واضح ہے کہ ہر قسم کی تپش قابلِ لحاظ ہے، خاص طور پر غریب ملکوں کے لیے۔
‘اس سے یہ امید بھی بیدار ہوتی ہے کہ 1.5 سیلسیئس کی حد اب بھی ممکن ہے۔ یہاں کاٹوویٹسا میں ہمیں مل کر تعمیری انداز میں کام کرنا چاہیے تاکہ یہ ہدف حقیقت بن سکے۔’
کیا صدر ٹرمپ کے دور میں بین الاقوامی تعاون ممکن ہے؟
صدر ٹرمپ امریکہ کو پہلے ہی پیرس معاہدے سے الگ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ البتہ امریکہ 2020 تک اس معاہدے کا رکن رہے گا، اور اس کے مذاکرات کار اجلاسوں میں حصہ لیتے رہیں گے۔
تاہم صدر ٹرمپ کی کوئلے سے محبت کے پیش نظر کہا جا رہا ہے کہ وائٹ ہاؤس ایک بار پھر کوئلے اور دوسرے فاسل ایندھن کو فروغ دینے کے لیے ایک ایونٹ کا انعقاد کرے گا۔
وہ اس سے قبل بھی اس قسم کا اجلاس منعقد کروا چکے ہیں جس پر بڑے پیمانے پر تنقید ہوئی تھی۔
لیکن دوسری طرف اس کانفرنس میں 29 ملکوں کے سربراہ شریک ہیں۔ البتہ یہ تعداد پیرس کانفرنس سے خاصی کم ہے۔
تاہم چین اور یورپی یونین کے یہ اجلاس بےحد اہم ہے۔ انھیں یہ دکھانا ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں بھی بین الاقوامی تعاون ممکن ہے۔