اسلام آباد: پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی ایسے ملک کے ساتھ تعلق قائم رکھنا نہیں چاہیں گے جو پاکستان کو ’کرائے کے قاتل‘ کے طور پر استعمال کرے، یعنی پیسوں کے عوض کسی اور کی جنگ لڑنا۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘ہم خود کو کبھی بھی دوبارہ اس صورتحال میں نہیں ڈالیں گے۔ اس سے ناصرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور ہمارے قبائلی علاقوں میں تباہی ہوئی، بلکہ ہمار وقار بھی مجروح ہوا۔ ہم امریکہ کے ساتھ حقیقی تعلقات چاہتے ہیں۔’چین کے حوالے عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘چین کے ساتھ ہمارے تعلق یکطرفہ نہیں ہیں۔ یہ دو ممالک کے درمیان تجارت کا تعلق ہے۔ ہم امریکہ کے ساتھ بھی ایسا ہی تعلق چاہتے ہیں۔’واشنٹگن پوسٹ کی صحافی لیلی ویمتھ کے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر آپ امریکہ کی پالیسوں سے اتفاق نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ امریکہ مخالف ہیں۔ یہ ایک سامراجی سوچ ہے کہ آیا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف۔’پاکستان میں افغان طالبان کی پناہ گاہوں کے الزام سے متعلق سوال پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان میں افغان طالبان کی پناہ گاہوں کی موجودگی کا الزام دہرایا تھا۔’جب حکومت میں آیا تو سیکورٹی فورسز سے مکمل بریفنگ لی اور وقتاً فوقتاً امریکا سے کہا کہ وہ بتائیں پاکستان میں پناہ گاہیں کہاں ہیں تاکہ ہم اس پر کارروائی کر سکیں۔ پاکستان میں طالبان کی کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں۔’خیال رہے کہ رواں سال کے آغاز میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ ‘امریکہ نے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر بطور امداد دے کر بیوقوفی کی۔ انھوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا۔’صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘وہ ہمارے رہنماؤں کو بیوقوف سمجھتے رہے ہیں۔ وہ ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں جن کا ہم افغانستان میں ان کی نہ ہونے کے برابر مدد سے تعاقب کر رہے ہیں۔اب ایسا نہیں چلے گا۔’اس حوالے سے ٹویٹ اور اس پر جواب سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ٹوئٹر پر صدر ٹرمپ کو جواب دینے کا مقصد ریکارڈ درست کرنا تھا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘سب سے پہلے یہ کہ یہاں کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ اگرچہ چند سو، شاید 2000 سے 3000 طالبان پاکستان آگئے ہیں تو وہ آسانی سے افغان مہاجر کیمپوں میں گھس سکتے ہیں۔’افغانستان میں قیام امن اور طالبان سے مذاکرات سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ ‘افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہیں۔ اس کے لیے ہم سب کچھ کریں گے۔’افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ‘ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔ طالبان پر دباؤڈالنے کا کہنا تو بہت آسان ہے لیکن کرنا مشکل۔ یہ یاد رکھیں کہ افغانستان کا 40 فیصد علاقہ اب حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔’اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بارے میں ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘یہ پاکستان کے لیے ذلت آمیر تھا کہ ہم اپنے سپاہی اور شہری کھو رہے تھے اور بم دھماکوں کا سامنا کر رہے تھے کیونکہ ہم امریکہ کی جنگ میں شرکت کر رہے تھے، اور پھر ہمارے اتحادی نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے ہم پر بھروسہ نہیں کیا۔ انھیں پاکستان کو پہلے سے اطلاع دینا چاہیے تھی۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہم دوست ہیں کہ دشمن۔’سوشل میڈیا پر زیادہ تر پاکستانیوں نے اپنے وزیراعظم کو امریکہ کو ’دو ٹوک‘ جواب دینے پر سراہا۔